صحافی خواتین کا سرکری سطح پر آن لائن ہراسگی الزام


0

پاکستان کی خواتین صحافیوں کے ایک گروپ کا دعویٰ ہے کہ انہیں متعدد حکومتی عہدیداران کی طرف سے انٹرنیٹ پر مسلسل ہراساں کیا جارہا ہے اور آن لائن ہراسانی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

صحافی خواتین گروپ کے اس بیان پر عاصمہ شیرازی ، نسیم زہرہ ، غریدہ فاروقی ، عنبر شمسی ، بے نظیر شاہ ، مہمل سرفراز ، زیب النساء برکی ، عالیہ چغتائی ، عائشہ بخش ، منیزے جہانگیر ، رمشا جہانگیر ، علینہ فاروقی ، ریم خورشید ، ناجیہ اشعر اور بہت سارے صحافیوں نے اس کی تائید کرتے ہوئے بیان پر دستخط کیے ہیں۔

ان خواتین صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر وہ خاموش نہیں بیٹھیں گی لہٰذا ان واقعات کے خلاف شکایت درج کرنے کے لئے وہ مل کر شریک ہو رہی ہیں۔ چونکہ کسی بھی معاشرے میں کسی بھی شخص کو کسی بھی طرح ہراساں کرنا قابل قبول نہیں، اس لئے ہراسانی کا ہدف بننے والی ان صحافی خواتین کا ساتھ دینے اور واقعے میں ملوث سرکاری حکام کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے دیگر خواتین بھی میدان میں آگئی ہیں۔

اس حوالے سےٹوئیٹر پر بھی مختلف آراء اور نظریات گردش کر رہے ہیں، جن میں ہراسانی کے ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے حکومت کو اس طرح کے واقعات رونما ہونے کی وجوہات کا سدباب کرنے کیلئے سخت کارروائی کرنے کی درخواست کی جارہی ہے۔

مزید یہ کہ اس معاملے پر مسلسل ٹویٹس کی وجہ سے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے ٹوٹیٹر پر بازگشت کرتی ان خبروں پر سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام سراسر نامناسب اور ناقابل قبول ہے۔ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کی اس واقعے پر نظرثانی کے بعد امید کی جارہی ہے کہ صحافی خواتین کو ہراساں کرنیوالوں کے خلاف سخت کارروائی کی عمل میں لائی جائے گی ۔

یاد رہے پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کو کسی بھی قسم کا ہراساں کیا جائے یعنی جنیسی ہراسگی، زہنی ہراسگی، کسی بھی قسم کا ٹوؤچر، نازیبا الفاظ وغیرہ وغیرہ ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا ہے جسے ہر طریقے سے قابل مذمت اور سنگین جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اس قسم کا الزام خواتین صحافیوں کی جانب سے ایک بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کو اس معاملے کو جلد از جلد تحقیقات کروانا چاہیے کیونکہ ماضی میں کسی بھی حکومتی دور میں خواتین صحافیوں کی جانب اس وقسم کا الزام سامنے نہیں آیا ہے۔ ورنہ یہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے لئے کسی بھی بڑے چیلنج سے کم نہ ہوگا۔ کیونکہ براہ راست ان کی حکومت کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *