ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لئے سرخ بچھیا کی قربانی


-4

صہیونیوں کا عقیدہ ہے کہ جب تک ہیکل سلیمانی کی تعمیر نہیں ہوتی ، اُس وقت تک مسیحا (دجال) اس دنیا میں تشریف نہیں لائے گا، ہیکل سلیمانی کی یہ تیسری تعمیر ہوگی جو صہیونیوں کے نزدیک آخری ہے۔

Red Heifer For Sacrifice

ہیکل سلیمانی کی از سرنو تعمیر کے لیے ماڈل بھی تیار ہے جو ماہرین آثار قدیمہ کی مدد سے تیار کیا گیا ہے اور انسانی اور مالی وسائل بھی میسر ہیں تاہم اس کی تعمیر میں دو مشکلات موجود تھیں جس کی وجہ سے یہ اب تک ممکن نہ ہوسکا۔

پہلی یہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے صہیونیوں کو گناہوں سے پاک کرنے والی قربانی کی شرط ہے جس کے  لیے قدیم یہودی روایات کے مطابق قربانی کے لیے ایک ایسی سرخ بچھیا درکار ہے جس کا ایک بال بھی کسی اور رنگ حتیٰ کہ بھورا بھی نہ ہو۔

دوسری دقت ہیکل سلیمانی کے تعمیر کا مقام ہے، صہیونیوں کے مطابق ہیکل سلیمانی کو جس مقام پر تعمیر کیا جانا ہے ، وہ عین وہی مقام ہے جہاں پر اس وقت مسجد اقصٰی موجود ہے۔

                یعنی ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا صاف اور سیدھا سا مطلب مسجد اقصیٰ کی شہادت ہے۔ اگر مسجد اقصیٰ محض مسلمانوں کا مقدس مقام ہوتا تو ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہوتی یا نہ ہوتی مگر صہیونی اسے اب تک شہید کرچکے ہوتے  تاہم یہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کا بھی مقدس ترین مقام ہے، یہی وجہ ہے کہ صہیونیوں کو اس کی شہادت کے لیے باقاعدہ ماحول بنانا پڑرہا ہے۔

گزشتہ برس ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیےقائم کردہ خصوصی ادارے دی ٹیمپل انسٹیٹیوٹ کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ ’مکمل طور پر سرخ بچھیا کی پیدائش اسرائیل میں ہوئی ہے، جس کے ساتھ ہی دنیا کے اختتام کا باب شروع ہوگیا اور کائنات اپنی زندگی کے آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے’۔

Red Heifer For Sacrifice

اس ہیکل کی دوبارہ تعمیر کیلئے عقیدت مند لوگ بائبل کی کتب الاعداد (بُک آف نمبرز) کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا ہے کہ ’’ایک ایسی سرخ بچھیا کی قربانی پیش کی جائے جو بے عیب ہو، اس میں کوئی داغ نہ ہو، اور جسے کبھی ہل میں نہ جوتا گیا ہو۔‘‘ صرف ایسی ہی قربانی کے بعد ہیکل دوبارہ تعمیر ہو سکے گا

ادارے کا کہنا تھا ‘اب یروشلم میں تیسرے معبد کی تعمیر ہو گی، جس کے سامنے اس بچھیا کی قربانی پیش کی جائے گی، اور پھر مسیح (دجال) کا ظہور ہو جائے گا’۔

                ان سرخ بچھیاؤں کو مقبوضہ بیت المقدس لانے میں اہم کردار یتشاک مامو نے ادا کیا ہے جن کا تعلق یوون یروشلم نامی یہودی گروپ سے ہے اور یہ گروپ قدیم شہر میں ہیکل کی از سر نو تعمیر کیلئے پرعزم ہے۔

یتشاک مامو کے مطابق، سرخ بچھیا کی امریکا سے برآمد پر سخت ممانعت کے سخت قوانین کو نرم کرنے کیلئے، بچھڑوں کی بطور پالتو جانور درجہ بندی ان سرخ بچھیاؤں کو مقبوضہ بیت المقدس لانے میں اہم کردار یتشاک مامو نے ادا کیا ہے جن کا تعلق یوون یروشلم نامی یہودی گروپ سے ہے اور یہ گروپ قدیم شہر میں ہیکل کی از سر نو تعمیر کیلئے پرعزم ہے۔

 ۔ اب ان گائیوں کو مقبوضہ بیت المقدس پہنچا دیا گیا ہے جہاں ایک وسیع و عریض سفید رنگ کی قربان گاہ پر لیجا کر ان کی قربانی پیش کی جائے گی، یہ قربان گاہ زیتون کے پہاڑ کے سامنے ہے جہاں جلد ہی ان گائیوں کو جلایا جائے گا۔

یہودیوں کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے لے کر 70 عیسوی میں دوسرے ہیکل کی تباہی تک 9 گائے کی قربانی دی جاچکی ہے اور اب 10ویں قربانی مسیح کےدور کا آغاز ہوگا۔

انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین ربّیوں کے ہمراہ روز اس بچھیا کا معائنہ کرتے ہیں، اگر صورتحال مطلوبہ شرائط کے مطابق رہی اور یہ بچھیا کسی حادثے یا طبعی موت کا شکار نہیں ہوئی تو اس کی قربانی ایک مخصوص عمر میں مجوزہ ہیکل سلیمانی کے دروازے کے باہر کی جائے گی جو ممکنہ طور پر رواں برس اپریل میں ہوسکتی ہے۔

یوں یہودیوں کو تیسرے ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے سرخ بچھڑے سمیت سارے ہی اسباب مہیا ہوگئے ہیں اور بس اب اس کے لیے مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کے لیے مناسب موقع کا انتظار کررہے ہیں

ان سب باتوں کی روشنی میں اگر غزہ کی موجودہ  جنگ کو دیکھیں تو بہت سارے حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں۔


Like it? Share with your friends!

-4
Annie Shirazi

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *