نیویارک: ٹائمز اسکوائر میں روزہ افطار وتراویح کی ادائیگی


0

امریکہ کی ریاست نیویارک کے اہم مقامات میں سے ایک ٹائمز اسکوائر دنیا کا سب سے مشہور چوک مانا جاتا ہے۔ یہ ایک اہم سیاحتی مرکز ، کمرشل کراس روڈ اور تفریحی مرکز ہے۔ نیویارک کے وسط میں واقع یہ ملک کی سب سے متحرک اور رواں دواں چوک ہے جو ساتویں ایوینیو اور براڈ وے کے چوراہے پر ہے۔ یہاں پر لگژری ہوٹلوں ، ریسٹورانٹ ، مووی اسٹوڈیوز اور دفاتر موجود ہیں۔

رنگ برنگے روشن بل بورڈز اس چوک کی خصوصیات بن گئے ہیں۔ تاہم پہلے اس چوک کو لانگیکری اسکوائر کہتے تھے مگر جب نیو یارک ٹائمز کا صدر دفتر یہاں منتقل ہوا تو اس کا نام ٹائمز اسکوائر پڑ گیا۔ 300 سالہ یہ قدیم ٹائمز اسکوائر روزانہ اوسطاً 360،000 زائرین کی میزبانی کرتا ہے۔ یہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے بھی خصوصی دلچسپی کا باعث ہے اور ہرسال ، ہزاروں کی تعداد میں یہاں پر لوگ نئے سال کاجشن منانےکے لئے آتے ہیں۔

Image Source: Unsplash

مگر اس بار نیویارک کے قلب ٹائمز اسکوائر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ مسلمانوں کے بابرکت مہینے رمضان المبارک کے موقع پر یہاں روزہ افطار اور تراویح کی ادائیگی کا اہتمام کیا گیا جس نے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی۔ اس بابرکت موقع سے فضیاب ہونے کے لئے تقریباً ایک ہزار سے زائد مسلمان مختلف شہروں سے سفر کر کے یہاں پر پہنچے اور انہوں نے روزہ افطار کرنے کے بعد نماز تراویح ادا کی۔

Image Source: Twitter

منتظمین کی جانب سے اس اجتماع میں مقدس اسلامی مہینے کے بارے میں تقاریر کی گئیں اور ایک مقرر نے کہا کہ ہم یہاں ان تمام لوگوں کو اپنے مذہب کی وضاحت کرنے کے لیے آئے ہیں جو نہیں جانتے کہ اسلام کیا ہے، اسلام امن کا مذہب ہے۔ اس تقریب کے اختتام میں لوگوں میں کھانے بھی تقسیم کیے گئے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ جب ٹائمز اسکوائر پر اس قسم کا مذہبی اجتماع دیکھنے کو ملا ہے اس لئے اس افطار وتراویح کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں۔ تاہم اس حوالے سے کئی صارفین کو یہ تشویش ہے کہ ٹائمز اسکوائر کا ماحول نماز تراویح اور دعا کے لیے سازگار نہیں کیونکہ یہاں اشتہاری ویڈیوز وال سے پورا علاقہ جگمگاتا رہتا ہے ،ساتھ ہی میوزک کا شور بھی رہتا ہے۔

اس بارے میں ایک ٹوئٹر صارف نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر طرف بل بورڈز ہیں، وہاں موسیقی عام ہے؟ یقیناً نماز کے لیے کوئی بہتر جگہ ہے۔ مقامی مسجد جانا بہتر لگتا ہے۔ ایک خاتون صارف نے لکھا کہ میں کل اپنے سسرال والوں کے ساتھ ٹائمز اسکوائر گئی تھی۔ جہاں بل بورڈز اور اسکرینوں پر نیم برہنہ لڑکیاں نظر آرہی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے ماحول میں اور ایسے بورڈز کے سائے تلے نماز پڑھ کر ہم غیر مسلموں کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟

خیال رہے کہ اس ماہ مبارک میں ترکی میں واقع تاریخی جامع مسجد “آیاصوفیہ” میں 88 برس کے طویل وقفے کے بعد ترک حکومت نے پہلی مرتبہ نمازِ تراویح کی ادائیگی کا اعلان کیا اور تقریباً 9 دہائیوں بعد اس مسجد میں یکم اپریل کو ماہ صیام کی پہلی تراویح ادا کی گئی جس میں نمازیوں کی بڑی تعداد جن میں بزرگ، نوجوان اور کم عمر نمازی شامل تھے، نے شرکت کی۔ جبکہ کورونا کے پیش نظر زیادہ تر افراد نے ویکسین بھی لگوا رکھی تھی اور احتیاطی تدابیر کے تحت فیس ماسک بھی پہن رکھا تھا۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *