اسرائیل فلسطین تنازعات کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟


3

اسرائیل کی جانب سے حالیہ پُرتشدد کارروائیوں میں غزہ میں ملبے کے ڈھیر اور اس پر روتے سسکتے امداد کے منتظر فلسطینیوں کی حالت زار نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ بیت المقدس میں ہونے والی جھڑپوں میں سینکڑوں فلسطینیوں کے زخمی ہونے کے بعد اس خطے میں تنازع اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا کہ جب مشرق بیت المقدس میں شیخ جراح نامی گاؤں میں فلسطینی شہریوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کے واقعے کے بعد مسجد اقصیٰ میں اس کے خلاف عوامی احتجاج شروع ہوا۔ جس کے بعد اسرائیل نے مسجد اقصیٰ میں پولیس آپریشن کے ذریعے اس احتجاج کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی اور دوسری طرف غزہ میں اسرائیل نے راکٹ داغے جس پر حماس نے جوابی کارروائی کی اور 11 دن کے حملوں اور خون ریزی کے بعد بلآخر اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی ہوگئی۔

ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری اس جنگ میں اب تک 232 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں 65 بچے بھی شامل ہیں جب کہ 1900 افراد زخمی ہیں اور 10 ہزار سے زائد بے گھر ہوچکے ہیں۔

Image Source: The Electronic Intifida

حالیہ تشدد کے یہ واقعات گذشتہ کئی ماہ سے بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں سامنے آئے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان یہ تنازع نیا نہیں ہے بلکہ کئی دہائیوں پرانا ہے ، یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ مسئلہ کب اور کیسے شروع ہوا۔

پہلی جنگ ِعظیم

پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطینی خطے کا کنٹرول سنبھال لیا۔اس وقت یہاں پر ایک عرب اکثریت میں جبکہ یہودی اقلیت میں تھے, دونوں برادریوں میں تناؤ اس وقت بڑھنے لگا جب عالمی برادری نے برطانیہ کی ذمہ داری لگائی کہ وہ یہودی کمیونٹی کے لیے فلسطین میں قومی گھر کی تشکیل کریں۔ یہودیوں کے نزدیک یہ ان کا آبائی گھر تھا مگر اکثریت میں موجود فلسطینی عربوں نے اس اقدام کی مخالفت کی۔

چنانچہ 1920 سے 1940 کی دہائی کے دوران یہاں پر یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان میں سے کچھ دوسری جنگِ عظیم میں یورپ سے ہولوکاسٹ سے بچ کر آئے تھے۔ مگر اس دوران یہودیوں اور عربوں کے درمیان، اور برطانوی حکومت کے خلاف پُرتشدد واقعات بڑھنے لگے۔ 1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا گیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے جن میں ایک یہودی ریاست ہو اور ایک عرب ریاست جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہوگا۔

اس تجویز کو یہودی رہنماؤں نے تسلیم کر لیا لیکن عربوں نے بکثرت مسترد کردیا چنانچہ اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

اسرائیل کا قیام

Image Source: The Guardian

سال 1948 میں برطانوی حکمران یہ مسئلہ حل کیے بغیر ہی یہ خطہ چھوڑ کر چلے گیے۔ ادھر یہودی رہنماؤں نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا۔جس پر بہت سے فلسطینیوں نے مخالفت کی اور پھر جنگ چھڑ گئی۔ ہمسایہ عرب ممالک کی فوجوں نے بھی اس جنگ میں حصہ کی۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا اور انھیں جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ اس کے اگلے برس جنگ بندی کا اعلان ہوا تو اسرائیل نے زیادہ تر خطے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔

اردن نے جو خطہ حاصل کیا اسے ویسٹ بینک یعنی غربِ اردن کہتے ہیں اور مصر نے عزہ کی پٹی سنبھال لی۔ بیت المقدس کے مغربی حصے کو اسرائیلی فورسز نے سنبھال لیا جبکہ اردن کی فوج نے مشرق کا کنٹرول لے لیا۔ کیونکہ یہاں پر امن معاہدہ نہیں ہوا، اس لیے ہر فریق نے اپنے مخالف پر الزام دھرا اور مزید جنگیں بھی ہوئیں اور کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔

اسرائیل کا قبضہ

Image Source: Palestine Portal

لہذا 1967 میں ایک اور جنگ کے بعد اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور غربِ اردن کے ساتھ شام میں گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹی اور مصر میں آبنائے سینا پر بھی قبضہ کر لیا۔ زیادہ تر فلسطینی، جواب پناہ گزین بن چکے تھے، یا ان کی آنے والی نسلیں اب غزہ کی پٹی اور غربِ اردن میں رہتے ہیں۔ اس کے بہت سے فلسطینی رشتہ دار اردن، شام، اور لبنان میں مقیم ہیں۔نہ پناہ گزینوں کو اور نہ ہی ان کی نسلوں کو اسرائیل نے ان کے اپنے گھروں میں لوٹنے کی اجازت دی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا ان کے ملک کے لیے بہت بھاری ثابت ہوگا اور ان کی ریاست کو بطور ایک یہودی ریاست خطرہ ہوگا۔

آج بھی اسرائیل غربِ اردن پر قابض ہے تاہم اس نے غزہ کی پٹی سے فوجیں نکال لی ہیں، مگر اقوام متحدہ آج بھی اس علاقے کو مقبوضہ مانتا ہے اور اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارلخلافہ مانتا ہے جب کہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مانتے ہیں۔ امریکہ ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو اسرائیلی دعوے کو تسلیم کرتا ہے۔گذشتہ 50 سالوں میں اسرائیل نے یہاں آبادیاں بنالی ہیں جہاں چھ لاکھ یہودی رہتے ہیں ۔ تاہم فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہے اور امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں جبکہ اسرائیل اسے مسترد کرتا ہے۔

فلسطین پر پہلا حق کس کا ہے؟

اسرائیلی اور فلسطینی جو مشرقی بیت المقدس، غزہ کی پٹی اور غربِ اردن میں بستے ہیں ان کے درمیان ہمیشہ تناؤہی رہتا ہے۔ غزہ میں فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس برسرِاقتدار ہے جس نے اسرائیل سے کئی مرتبہ جنگ کی ہے۔ اسرائیل اور مصر سختی سے غزہ کی سرحدوں کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ حماس تک ہتھیار نہ پہنچیں۔ غزہ اور غربِ اردن میں رہنے والے فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پابندیاں اور کارروائیاں ان کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہیں اگرچہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ تو صرف خود کو فلسطینی تشدد سے بچا رہے ہیں۔

Image Source: Al-Jazeera

درحقیقت اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو آزاد اور خود مختار اسٹیٹ کے اختیارات دینے پر راضی نہیں اور فضائی، بحری اور زمینی راستوں پر پوری طرح اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ فلسطینی نہ اپنی مرضی سے کہیں جا سکتے ہیں، نہ آسکتے ہیں اور نہ ہی تجارت کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہودی بستیوں کی آبادکاری میں بھی شدید بے رحمی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی فوجیں گھر والوں کو چند دن قبل اطلاع دے دیتی ہیں کہ وہ اپنا گھر خالی کردیں ورنہ سرکار کسی جانی یا مالی نقصان کی ذمے دار نہیں ہوگی۔ اسرائیلی حکومت کی پالیسیز کس قدر بے رحم اور بے لچک ہیں کہ فلسطینی باشندوں کو اپنا سامان اور بال بچے سمیٹ کر اسرائیل کی حدود سے باہر جانا پڑتا ہے ۔جو فلسطینی کرائے کا گھر افورڈ کرسکتے ہیں، انہیں بھی بہت سی یہودی بستیوں میں کورٹ کے فیصلے کے باوجود گھر کرائے پر نہیں دیا جاتا۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا پر فلسطین کی حمایت میں پاکستانی سب سے آگے

کئی دہائیوں سے لاکھوں فلسطینیوں کو طاقت کے زور پر ان کے گھروں سے نکالنا اور انہیں ہمسایہ ممالک اور غزہ میں پناہ لینے پر مجبور کرنا اصل میں انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور اسے بین الاقوامی قانون کے تناظر میں دیکھنا چاہیے اور یہی تناظر فلسطینیوں کے حق میں بھی جاتا ہے۔

اسرائیل فلسطین مسائل کیا ہیں ؟

ماضی کے حقائق پر نظر رکھی جائے تو ایسے متعدد معاملات ہیں جن پر فلسطینی اور اسرائیلی تاحال اتفاق نہیں کرسکے۔ تاہم ، ان دونوں فریقین کے مابین مرکزی مسائل یہ ہیں کہ غربِ اردن میں یہودی بستیاں رہیں گی یا نہیں، اور فلسطینی پناہ گزینوں کا کیا ہوگا؟ کیا دونوں فریق بیت المقدس میں اکھٹے رہ سکتے ہیں ؟ اور سب سے مشکل امر یہ کہ کیا اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست بننی چاہیے۔ ان وجوہات پر گذشتہ 25 سالوں سے دونوں فریقین کے درمیان امن مذاکرات وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں مگر تاحال معاملات حل نہیں ہوسکے۔


Like it? Share with your friends!

3

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *