ٹوئیٹر نے بھارتی درخواست کو مسترد کردیا


0

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر نے منگل کے روز کہا تھا کہ وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے کچھ اکاؤنٹس کو بند کرنے کی درخواست کو پوری طرح تعمیل نہیں کرسکتے ہیں۔ ٹوئیٹر کے مطابق انہیں اس بات پر تحفظات ہیں کہ یہ احکامات بھارتی قانون کے مطابق نہیں ہیں۔

ٹوئیٹر کی جانب سے درخواست کئے گئے چند اکاونٹس کو تو مستقل طور پر بند کردیا گیا ہے لیکن دیگر کچھ اکاونٹس ایسے ہیں جن کا استعمال بھارت میں بند کردیا گیا ہے، البتہ وہ دنیا میں دیگر ممالک میں استعمال ہوسکے گا۔

Dennis Freedman Tea Party

امریکی سوشل میڈیا سائٹ ٹوئیٹر نے خود کومودی انتظامیہ کے ساتھ ایک لاحاصل بحث میں کھڑے پایا ہے کیونکہ ہندوستان چاہتا ہے کہ 1،100 سے زیادہ جعلی ٹوئیٹراکاؤنٹس کو ختم کیا جائے۔ ان کا مؤقف ہے کہ کئی مہینوں سے جاری کسانوں کے احتجاج کے بارے میں جعلی ٹوئیٹراکاؤنٹس غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔

بھارتی حکومت کی جانب سے بےبنیاد الزامات عائد کئے جارہے ہیں کہ ان مذکورہ اکاؤنٹس میں کئی اکاؤنٹس کو پاکستانی حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے، جنہیں علحیدگی پسند سکھ چلا رہے ہیں۔

جس پر بھارتی انتظامیہ کی جانب گزشتہ ہفتے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر کو عدم تعاون پر ایک نوٹس بھیجا گیا تھا، اس سلسلے انہوں نے اپنے عہدیداروں کو سات سال تک کی جیل اور متعلقہ کمپنی کو جرمانے کی دھمکی دی ہے، کہ اگر وہ مواد روکنے میں ناکام رہے۔

اس حوالے سے ٹوئیٹر کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ انہوں نے 500 کے قریب ایسے اکاوئنٹس کو معطل کردیا ہے جو دھوکا دہی، ہیرا پھیری اور جعلسازی کی واضح مثالوں میں شامل تھے۔ یہی نہیں ٹوئیٹر نے ایسے سینکڑوں افراد اکاؤنٹس پر بھی کاروائی کی تھی جنہوں نے تشدد اور بدسلوکی سے متعلق اس کے قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔

تدوسری جانب ٹوئیٹر کی جانب سے کچھ اکاؤنٹس کو جیو بلاک کیا گیا ہے، تاہم ٹوئیٹر انتظامیہ کی جانب سے اس بارے میں تفصیل سے آگاہ نہیں کیا گیا ہے کہ اس نے کس اکاؤنٹ پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ٹوئیٹر کے مطابق، کچھ ٹوئیٹر اکاؤنٹ بھارت سے باہر قابل استعمال ہونگے، کیونکہ انہیں یقین نہیں ہے کہ انہیں جو اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، وہ بھارتی قانون کے مطابق ہیں یا نہیں۔

اس موقع پر بھارتی انتظامیہ کی جانب سے ٹوئیٹر سے نیوز اکاؤنٹس تک رسائی کو محدود رکھنے کے لئے بھی کہا گیا ہے، جس کے حوالے سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آزادی صحافت میں غلط معلومات پھیلانے کہ آزادی شامل نہیں ہے۔

جس پر ٹوئیٹر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے صحافیوں، نیوز میڈیا، ایکٹیویسٹ اور سیاستدانوں کے ذریعے چلائے جانے والے کھاتوں پر کسی قسم کی کوئی نہیں کی گئی ہے۔ ٹوئیٹر کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ ایسا کرنے سے بھارتی قانون کے تحت آزادی اظہار رائے کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوگی۔

یہی نہیں ٹوئیٹر انتظامیہ بھارت کے وزیر ٹیکنالوجی کے ساتھ بات چیت کا خواہاں ہے۔ اس سلسلے میں اطلاعات ہے کہ درخواست مسترد کردیا گیا ہے۔ جس پر کمپنی کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اس کے بجائے وزارت کے اعلی عہدیدار سے ملاقات کریں۔

جبکہ بھارت کی وزارت ٹیکنالوجی نے فوری طور پر تبصرہ کرنے کی درخواست کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ البتہ ٹوئیٹر بھارتی قوانین کے تحت دیگر آپشن کو زیر غور لارہا ہے۔

یاد رہے بھارت میں گزشتہ برس نومبر میں بھارتی حکومت کی جانب سے زراعت کے شعبے میں قانون سازی کی گئی تھی، جس کے مطابق کسان کو اپنی فصل ریاست کے مقرر کردہ نرخوں پر مخصوص مارکیٹس میں فروخت کے بجائے اپنی مرضی سے کسی کو بھی کسی بھی قیمت پر فروخت کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ بھارتی حکومت نے اسے کسانوں کے لئے ایک تاریخ ساز فیصلہ قرار دیا تھا تاہم بھارتی کسانوں کا موقف ہے کہ اس سے بھارتی زراعت پر بڑی مچھلیوں کا قبضہ ہوجائے گا۔ اس فیصلے کے خلاف بھارتی کسان کئی ماہ سے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔

بعدازاں کسانوں کی ریلیوں پر بھارتی پولیس کی جانب لاٹھی چارج پر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد کی۔جانب سے بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، امریکی پاپ اسٹار ریحانہ نے سلسلے میں ٹوئیٹر پر کسانوں کی حمایت میں ایک پیغام بھی جاری کیا تھا۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *