پاکستانی سائنسدان مبشر حسین رحمانی کیلئے ایک اور عالمی اعزاز


0

پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر مبشر حسین رحمانی نے ایک بار پھر عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر دیا ۔ ان کا نام مسلسل دوسری بار کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں دنیا کے بہترین 1 فیصد ریسرچرز کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔ کمپیوٹر سائنس کی دنیا میں یہ اعزاز نوبل پرائز جیسی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ڈاکٹر مبشر کو بہترین تحقیقی مقالوں کی بنیاد پر یہ اعزاز دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ امریکی کمپنی ’کلیریویٹ انالیٹکس‘ کی طرف سے مرتب کردہ عالمی فہرست میں صرف وہ سائنسدان شامل ہوتے ہیں جن کی ریسرچز دنیا بھر میں استعمال ہوتی اور ہر سال کلیری ویٹ دنیا کو درپیش مسائل پر کام کرنے والے محققین اور تخلیقی مضامین کی ایک فہرست جاری کرتی ہے۔ تازہ فہرست میں 26 نوبل انعام یافتہ افراد سمیت 21 شعبوں میں 6 ہزار 400 محققین بھی شامل ہیں۔اس فہرست میں دنیا بھر کے بہترین تحقیقی مقالوں کے حوالے دیے جاتے ہیں تاکہ محققین، سائنسدان اور طلبہ و طالبات تازہ مضامین اور مختلف شعبوں میں نئی پیش رفت سے مستفید ہوسکیں۔

Image Source: Twitter

کلیری ویٹ کی جاری کردہ فہرست میں پاکستانی نوجوان ڈاکٹر مبشر رحمانی کا تعارف، اس دہائی کے سب سے زیادہ اثر انگیز کمپیوٹر سائنٹسٹ کے طور پر درج ہے اور ان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ انہوں نے 100 سے زائد تحقیقی مقالے اور تجزیاتی رپورٹس لکھیں ساتھ ہی ان کے 12 تحقیقی مضامین کو کمپیوٹر سائنس کے محققین نے اپنی تحقیق میں بطور حوالہ شامل کیا یعنی ان کے کام کو بطور سند استعمال کرتے ہوئے ان کے کام کو سراہا گیا۔ مبشر رحمانی کا کام وائرلیس نیٹ ورکس، بلاک چین، کوگنیٹیو ریڈیو نیٹ ورکس، اور سافٹ ویئر۔ڈیفائنڈ نیٹ ورکس پر مشتمل ہے۔

Image Source: File

اس کے علاوہ پاکستانی سائنسدان 3 کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ ایک کتاب بلاک چین ٹیکنالوجی کے موضوع پر ہے۔ دیگر کے عنوانات ٹرانسپورٹیشن اینڈ پاور، گریڈ ان اسمارٹ سٹیز اور سینسر نیٹ ورک شامل ہیں۔

مبشر حسین رحمانی کی اس کامیابی پرکراچی میں قائم امریکی قونصل خانے نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری پیغام کے ذریعے ان کو مبارکباد دی ہے۔

خیال رہے کہ ڈاکٹر مبشر حسین کی ابتدائی اور پروفیشنل تعلیم کراچی میں ہوئی ہے۔ 2004 میں انہوں نے جام شورو کی مہران یونیورسٹی آف انجنئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے کمپیوٹر انجنئیرنگ کی تعلیم مکمل کی اور ایک سال میں انہیں فرانس کی ساربورن یونیورسٹی کے سپر لیک انسٹیٹیوٹ میں ایم فل ٹو پی ایچ ڈی کرنے کی اسکالر شپ مل گئی۔ اس کے بعد انہوں نے ساربون یونیورسٹی کے ’کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ لیبارٹری‘ سے اپنا پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ انہیں فرانس کا پی ایج ڈی ڈگری کا سب سے بڑا اعزاز بھی ملا۔

پی ایچ ڈی کرکے واپس پاکستان آئے اور انہوں نے کومسیٹ یونیورسٹی (کامسیٹس) کے واہ کینٹ کیمپس میں الیکٹریکل سسٹم کا مضمون پڑھایا۔ پی ایچ ڈی اور کومسیٹ میں بطور لیکچرر پڑھانے کے بعد وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے وہ آئرلینڈ چلے گئے اور اس وقت وہ آئرلینڈ کی ’منسٹر ٹیکنالوجی یونیورسٹی‘ میں بطور اسسٹنٹ لیکچرار خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔مبشر رحمانی کو ان کی قابل قدر خدمات پر حکومت پاکستان سمیت غیر ملکی اداروں کی جانب سے متعدد عالمی اعزازات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔

بلاشبہ پاکستان نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت سارے انتہائی قابل نام پیدا کیے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے ملک کا نام پورے دنیا میں ٖفخر کا باعث بنا ہے۔گ زشتہ سال بھی پاکستانی سائنسدان مولیکیولر بائیولوجسٹ ڈاکٹر آصفہ اختر کو سال 2021 کے لئے جرمن تحقیق کے سب سے معتبر ایوارڈ لیبینز پرائز کے لئے منتخب کرلیا گیا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر آصفہ اختر میکس پلانک سوسائٹی کے طب اور حیاتیات شعبے کی نائب صدر ہیں، وہ اس عہدے پر فائز ہونیوالی دنیا کی پہلی خاتون ہیں۔ نیز وہ ان دس سائنسدانوں میں سے ایک ہیں جنہیں اس اعزاز کے لئے منتخب کیا گیا۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *