شہر کراچی کے 12 سالہ وصی نے اپنے خاندان کی کفالت کا بیڑا اُٹھالیا


0

بچے سب کو اچھے لگتے ہیں، اور سبھی والدین اپنے بچوں سے بہت محبت کرتے ہیں اس لئے انہیں اچھی تعلیم دلاتے ہیں اور ان کا خاص خیال بھی رکھتے ہیں تاکہ وہ اچھے شہری اور اچھے انسان بن سکیں، لیکن بدقسمتی سے بہت سے بچوں کو غریبی اور مجبوری کی وجہ سے تعلیم کے بجائے محنت مزدوری کرنا پڑتی ہے۔یہ اسکولوں میں پڑھنے لکھنے کے بجائے محنت مزدوری کرکے اپنے گھر کی کفالت کررہے ہیں ، کوئی مکینک کا کام کرتا ہے تو کوئی سبزی بیچ رہا ہے، یہ بچے اپنے شوق سے نہیں بلکہ حالات سے مجبور ہوکر یہ کام کررہے ہیں تاکہ ان کے گھر کا چولہا جلتا رہے اور وہ بھوکے پیٹ نہ سوئیں۔تاہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 11 کے تحت چودہ سال سے کم عمر کا کوئی بچہ فیکٹری، دکان، ہوٹلز، میں ملازمت نہیں کر سکتا، لیکن اس کے باوجود چودہ سال سے کم عمر کے بچے مختلف ہوٹلوں، کارخانوں میں کام کرتے نظر آئیں گے، اکثر بچوں کو گھریلو ملازم کے طور پہ بھی رکھا جاتا ہے جہاں ان کی عمر سے بھی بڑے کام کروائے جاتے ہیں۔ جبکہ بعض والدین بھی اپنی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بچوں کو کام پہ لگا دیتے ہیں، غربت اور تنگدستی کی وجہ سے اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی بجائے ان سے محنت مشقت کروانے پہ مجبور ہوتے ہیں، تاکہ وہ بھی کچھ کما کر گھر کا خرچ چلانے میں مدد کر سکیں، ان میں ایسے بچے بھی ہیں جو ماں باپ کے سائے سے محروم ہوتے ہیں اور اپنے بہن بھائیوں کا پیٹ بھرنے کے لئے کام کرنے پہ مجبور ہوتے ہیں۔

یہ محنت کش معصوم بچے تعلیم سے محروم زندگی گزارنے پر مجبور اور زندگی کے آرام و آسائش سے بے نیاز صبح سے رات تک اپنے کام میں مگن رہتے ہیں، انہیں تو زندگی کی سہولتوں کا بھی پتا نہیں ہوتا، یہ ان کے کھیلنے کودنے کے دن ہوتے ہیں، لیکن وہ اتنی چھوٹی سی عمر میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

Image Source : Screengrab

بارہ سالہ وصی کی کہانی بھی ایسے ہی محنت کش بچوں سے ملتی جلتی ہے، یہ بچہ اتنی کم عمری میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے بجائے محنت کرکے معاشرے کو پیغام دے رہا ہے کہ اگر نیک نیتی سے کوشش کی جائے تو خدا بھی ضرور مدد کرتا ہے۔

Image Source : Screengrab

شہر قائد میں رہنے والا وصی گھر کے بنے رول فروخت کرتا ہے، وہ کراچی کے مشہور میریٹ کباب ہاؤس کے پاس سائیکل پر یہ رول بیچتا ہے۔اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے وہ پڑھائی کرنے کے ساتھ یہ رول بنانے میں اپنی والدہ کا ہاتھ بھی بٹتا ہے۔وصی کے مطابق وہ مدرسے سے ملنے والی بریک کے دوران پہلے اپنی والدہ کو رول کا سامان گھر پر پہنچاتا ہے اور مدرسے سے فارغ ہونے کے بعد گھر میں ان رول کی پیکینگ کرتا ہے اور پھر ان کو بیچنے نکل جاتا ہے اور رات گئے گھر واپس لوٹتا ہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ جس عمر میں بچے بے فکری کی زندگی گزارتے ہیں پڑھتےلکھتے اور کھیلتے کودتے ہیں، اس عمر میں وصی اپنی والدہ کے ساتھ مل کر چھوٹوں بن بھائیوں کی کفالت کے لئے رزق حلال کمانے کی جستجو میں لگے ہوا ہے۔

وصی کی طرح کراچی کا رہائشی 13 سالہ عبدالرحمن بھی کم عمری میں شام سے لیکر رات تک شہر کی مختلف فٹ پاتھوں پر خواتین کے لئے ملتانی کڑھائی کے کپڑے بیچتا ہے۔اس کے علاوہ شہر قائد کا ہی رہائشی، 14 سالہ مزمل جو کہ آٹھویں کلاس میں زیر تعلیم ہے۔ وہ اپنے اہل خانہ کی زندگی سنوارنے کے لئے دن رات محنت کررہا ہے اور اسکول ، مدرسے اور ٹیوشن سے فارغ ہونے کے بعد شام سے لیکر رات تک شوارما بیچتا ہے۔تاہم،سوشل میڈیا کے توسط سے جب ان محنتی بچوں کی کہانی منظر عام پر آئیں تو کئی لوگوں نے ان باہمت بچوں کے اقدام کو سراہا اور ان کی مدد بھی کی۔

Courtesy: AARO


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *