صبح اسکول ، دوپہر میں مدرسے اور رات میں شورما بیچتا 14 سالہ مزمل


-1

بیشک محنت میں عظمت ہے اور محنت سے حق حلال کی روزی کمانے والے کبھی کسی کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ یہی محنتی لوگ آگے چل کر کامیابیاں حاصل کرتے ہیں۔ شہر قائد کے رہائشی، 14 سالہ مزمل جو کہ آٹھویں کلاس میں زیر تعلیم ہیں ، اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زندگی سنوارنے کے لئے دن رات محنت کر رہے ہیں اور اسکول ، مدرسے اور ٹیوشن سے فارغ ہونے کے بعد شام سے لیکر رات تک شوارما بیچتے ہیں۔

حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ جس عمر میں بچے بے فکری کی زندگی گزارتے ہیں پڑھتےلکھتے اور کھیلتے کودتے ہیں ، اس عمر میں مزمل اپنے والد اور بھائی کے ساتھ رزق حلال کمانے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ گزشتہ دو سال سے حسین آباد کی فوڈ اسٹریٹ میں شوارما بیچ رہے ہیں۔

Image Source: Screenshot

مزمل کے مطابق وہ صبح سات بجے سوکر اٹھتے ہیں اور اسکول جاتے ہیں ، دوپہر ایک بجے ان کی گھر واپسی ہوتی ہے ،تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد وہ مدرسے چلے جاتے ہیں پھر وہاں سے فارغ ہونے کے بعد رات آٹھ بجے تک اپنا شوارمے کا اسٹال شروع کرتے ہیں جو رات بارہ بجے تک وہ دیکھتے ہیں اس کے بعد ان کے بھائی اسٹال سنبھالتے ہیں جورات دیر تک چلتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ شام میں اسٹال کھلنے کے بعد سے ان کے پاس گاہکوں کا تانتا باندھ جاتا ہے کیونکہ لوگ ان کا شوارما کافی پسند کرتے ہیں۔ یہ ذائقے میں دوسروں سے مختلف ہے اور اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس کے تمام اجزاء جیسے چکن ، چٹنیاں ،سوس وغیرہ سب ہوم میڈ ہوتی ہیں اور وہ ان کی امی خود بناتی ہیں۔

Image Source: Screenshot

ان کا کہنا ہے کہ وہ اسٹال سے ہونے والی آمدنی اپنے والد کو دیتے ہیں اور پھر وہ انہیں جیب خرچ دیتے ہیں۔ عام بچوں کی طرح مزمل کو بھی کھیل کود کافی پسند ہے اور فارغ اوقات میں وہ فٹبال کھیلتے ہیں۔چھوٹی سی عمر میں اتنی محنت کرنے والے مزمل کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے اور بڑے ہوکر وہ پولیس آفیسر بننا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: محنت میں عظمت ہے، 13 سالہ عبدالوراث

ہمارے ملک میں ہوشربا مہنگائی اور غربت کی وجہ سے چھوٹی عمروں میں کئی بچے اپنے گھر کی کفالت کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر 10 سالہ شاہ زیب کی کہانی تیزی سے وائرل ہوئی جو رزق حلال کمانے کے لئے سڑکوں پر موبائل فون کا سامان بیچتا ہے۔ وہ اسکول ، مدرسے اور ٹیوشن سے فارغ ہونے کے بعد رات آٹھ بجے سے دو بجے تک کراچی کی سڑکوں پر کاندھے پر بیگ لٹکائے موبائل فون کا سامان جیسے ہیڈ فون ، چارجر وغیرہ بیچتا ہے تاکہ اپنے گھر والوں کا پیٹ پال سکے۔

ان کے والد کو کرنٹ لگ گیا تو ذمہ داریوں کا بوجھ ان کے کاندھوں پر آگیا۔ شاہ زیب پہلے چھولے بیچے پھر اس کے بعد کھلونوں کا اسٹال لگایا لیکن اس دوران لاک ڈاؤن لگ گیا تو اسٹال بند کرنا پڑ گیا۔ پھر انہوں نے موبائل فون کا سامان بیچنا شروع کیا جس سے اب ان کی اچھی آمدنی ہوجاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ کام کرنے کے بجائے کسی کے آگے پھیلاتے تو انہیں پیسے مانگنے کی گندی عادت پڑجاتی اس لئے ان کے ماں باپ نے نصیحت کی کہ بیٹا محنت کرو۔

Story Courtesy: Aaro


Like it? Share with your friends!

-1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *