Uncategorized

گورا رنگ کرنیوالی کریموں میں ‘مرکری’ کی خطرناک مقدار شامل


0

گورا نظر آنے کا شوق کسے نہیں ہوتا اور بدلتے زمانے کے ساتھ اب یہ شوق خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں میں بھی بڑھتا جارہا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے مارکیٹ میں رنگ گورا کرنے والی کریموں کی خرید وفروخت بھی بڑھ گئی ہے۔ تاہم اس حوالے سے ایک حالیہ عالمی رپورٹ نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے کیونکہ اس رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ رنگ گورا کرنے والی کریموں اور دیگر مصنوعات کی بڑی تعداد میں پارے (مرکری) کی مقدار خطرناک حد تک زیادہ ہے۔

جیسکہ یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ پارے (مرکری) کو ’’سیال چاندی‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ عام درجہ حرارت پر مائع حالت میں ہوتا ہے اور یہ تھرمامیٹر سے لے کر دندان سازی، اور برقی آلات سے لے کر کاسمیٹکس تک، سیکڑوں مصنوعات و آلات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ہر شعبے میں پارے کے استعمال کی محفوظ حدود متعین ہیں جن کے حوالے سے عالمی قوانین بھی موجود ہیں۔ کاسمیٹک مصنوعات میں پارے کی ’’محفوظ مقدار‘‘ ایک حصہ فی دس لاکھ (1 پی پی ایم) یا اس سے کم قرار دی جاتی ہے۔

Image Source: Unsplash

واضح رہے کہ 17 ممالک میں کی گئی اس تازہ عالمی تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ رنگ گورا کرنے والی 48 فیصد مصنوعات میں پارے کی مقدار اس محفوظ حد سے کہیں زیادہ ہے۔ جبکہ یہ مصنوعات ایمیزون اور ای بے سمیت، دنیا کے تقریباً تمام بڑے ای کامرس پلیٹ فارمز پر دستیاب ہیں جو امریکا سے آسٹریلیا تک 100 سے زیادہ ممالک میں خریدی جارہی ہیں۔

Image Source: Unsplash

یہ تحقیقی رپورٹ پارے کی آلودگی کے خاتمے پر کام کرنے والے عالمی ادارے ’’زیرو مرکری ورکنگ گروپ‘‘ نے مختلف ملکوں میں غیرسرکاری تنظیموں کے تعاون و اشتراک سے شائع کی ہے۔

تحقیق کی غرض سے ایمیزون، ای بے اور علی ایکسپریس سمیت 40 ای کامرس پلیٹ فارمز سے رنگ گورا کرنے والی 271 مصنوعات خرید کر ان کا الگ الگ تجزیہ کیا گیا۔تجزیئے سے معلوم ہوا کہ ان میں سے 129 مصنوعات میں پارے کی مقدار 1 پی پی ایم کی محفوظ حد سے کہیں زیادہ تھی۔

Image Source: Unsplash

مذکورہ رپورٹ میں ایک اور تشویشناک بات یہ بھی بتائی گئی ہے کہ زیادہ مرکری والی 43 فیصد مصنوعات یا تو پاکستان میں تیار شدہ ہیں یا پھر ان کی پیکنگ پاکستان میں کی گئی ہے۔ان میں رنگ گورا کرنے والی کچھ مشہور پاکستانی کریموں اور دوسری متعلقہ مصنوعات کے نام بھی شامل ہیں۔ یہی نہیں، بلکہ رنگ گورا کرنے والی ان مصنوعات میں مرکری کا تناسب محفوظ حد سے بھی ہزاروں گنا زیادہ دیکھا گیا لیکن، حیرت انگیز طور پر، یہ مصنوعات درجنوں ممالک میں ای کامرس پلیٹ فارمز کے توسط سے بلا روک ٹوک دستیاب بھی ہیں۔

مزید پڑھیں: شوگر کے مریضوں کی انسولین سے جان چھڑانے کا حل نکال لیا گیا

خیال رہے کہ اس سے قبل پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) کے فارماسیوٹیکل سینٹر نے بھی پاکستان میں رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کے خلاف شکایات کے بعد کاسمیٹکس کے معیارات پر نظرثانی کی تھی اور ٹیسٹ کے بعد یہ بتایا تھا کہ گورا کرنے والی کئی کریموں میں کارٹیکوسٹیرائڈز اور پارہ (مرکری) کی بلند سطح موجود ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *