کچی آبادی سے امریکی یونیورسٹی تک کا سفر، ڈاکٹر سدرہ محنت اور عظمت کی اعلیٰ مثال


0

سچی لگن اور انتھک محنت انسان کو فرش سے عرش پہ بیٹھا دیتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آپ جتنی محنت کرتے ہیں، اس کا پھل بھی اتنا ہی اچھا ملتا ہے۔ ایسی ہی کہانی آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جو کہ شہر قائد میں کچی آبادی میں رہتی تھی لیکن آج اپنی کوششوں سے ڈاکٹر بن گئی ہے اور امریکہ کی یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے۔

شہر کراچی سے تعلق رکھنے والی اس لڑکی کا نام ڈاکٹر سدرہ اور وہ اپنی کہانی کچھ یوں بتاتی ہیں کہ جب میں چھوٹی تھی تو اس وقت تک میرے علاقے کے تمام اسکول سرکاری تھے، اور تعلیم کا معیار عام طور پر بہت کم تھا۔ اکثر اساتذہ نہیں ہوتے تھے پھر کچھ وقت بعد ایک اسکول دی سٹیزن فاؤنڈیشن اسکول، 1997 میں بنایا گیا، یہ میرے گھر سے پانچ منٹ دور تھا۔ یہاں سے میں نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔بچپن سے میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور چھٹی جماعت میں، میں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کا پورا فیصلہ کیا۔

Image Source: Twitter

اس وقت مجھے یہی خیال آیا کہ پتہ نہیں کوئی سرکاری اسکول ہوگا بھی یا نہیں، پتہ نہیں میں یہ سب کیسے کرسکوں گی۔ جب میں 6 یا 7 کلاس میں تھی تو میں نے دوسرے طلباء کو بھی ٹیوشن دینا شروع کیا پھر دسویں کے امتحانات میں تقریباً 90 فیصد مارکس حاصل کرکے ٹاپ کیا۔

Image Source: Twitter

اس کے بعد میں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے اسکالرشپ حاصل کی اور انٹرمیڈیٹ کالج میں داخلہ لیا۔ کالج میرے گھر سے دور ہونے کے باوجود یہ جان کر اطمینان تھا کہ مجھے فیس دینے کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انٹر کے اختتام تک میں کراچی کے 10,000 سے زیادہ طلباء میں 24 ویں نمبر پر تھی۔ لیکن پاکستان میں بہت زیادہ میڈیکل اسکول نہیں ہیں۔ مگر مجھے وہاں اسکالر شپ مل گئی اور میں نے میڈیکل کی تعلیم جاری رکھی۔

Image Source: Twitter

اب مجھے ایسا لگتا ہے جیسے پلک جھپکتے ہی پانچ سال گزر گئے۔ اپنے چوتھے سال میں مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ میری خاصیت نیورولوجی ہوگی۔اس وقت میرے بہت سے دوست امریکہ میں رہائش کے لیے درخواست دے رہے تھے ،ان کو دیکھ کر میں نے بھی ایسا ہی کیا۔میں نے امریکہ جانے کا امتحان دیا اور میری قسمت اچھی تھی کہ مجھے چن لیا گیا اور 24 سال کی عمر میں اسکالرشپ پر امریکہ چلی گئی۔

Image Source: Twitter

کچی آبادی کی ڈاکٹر سدرہ آج نیورولوجی ریزیڈنسی کے دوسرے سال میں ہیں اور ٹولیڈو، اوہائیو میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ دسمبر 2020 میں شادی کرنے کے لیے پاکستان واپس آئی تھی۔ان کے شوہر بھی ٹولیڈو میں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر سدرہ نے آج اپنی لگن اور محنت سے وہ خواب پورا کرلیا ہے جو وہ بچپن میں دیکھتی تھیں۔

دیکھا جائے تو اندرون سندھ میں ایسے ہزاروں بچے ہیں جن کا تعلق غریب خاندانوں سے ہے اور وہ تعلیم حاصل نہیں کرتے اور سڑکوں پر گھومتے رہتے ہیں۔اکثر یہ بچے جرائم پیشہ فرد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں منشیات فروشی، بھیک مانگنے اور چوری کرنے پر لگادیتے ہیں اور اس طرح یہ بچے کم عمری میں ہی جیل چلے جاتے ہیں۔ان بچوں کو برائیوں سے بچانے کے لئے ایک نوجوان جنید کھوسو نے سندھ میں 36 خیمہ اسکول کا آغاز کیا، وہ ان بچوں کو بنیادی تعلیم دیکر سرکاری اسکولوں میں داخل کراتے ہیں تاکہ وہ اپنا تعلیم سلسلہ جاری رکھ سکیں۔

Story Courtesy: Daily Ausaf


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *