ہوم فوڈ بزنس کرنیوالی 62 سالہ باہمت خاتون


0

کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن اور حکومتی پالیسی کی وجہ سے انڈور ڈائننگ پر پابندی پر لوگوں نے ٹیک اوے اور ہوم ڈیلیوری کا استعمال کرتے ہوئے اپنی بھوک کا علاج کیا۔ اس دوران جب کئی ریسٹورنٹ نقصان میں چل رہے تھے تو ہوم شیف کا کاروبار عروج پر تھا۔ ہوم شیف سے مراد گھر سے کیا جانا والا ایک چھوٹا سا کاروبار ہے جسے عموماً خواتین چلاتی ہیں جو ٹیک اوے اور ہوم ڈیلیوری کے ذریعے صارفین تک گھر کا تازہ بنا ہوا کھانا پہنچاتی ہیں اور صارفین اپنا تجربہ دوسروں سے شیئر کرتے ہیں اور اس طرح یہ کاروبار مقبول ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا اور اب فوڈ ڈیلیوری سروسز نے بھی ان کی مقبولیت میں اضافہ کردیا ہے۔

طلعت فاطمہ جن کی عمر 62 برس ہے ، یہ بھی ایک ہوم شیف ہیں اور اپنے گھر سے آڈرر پر کھانے پکانے کا کام کرتی ہیں۔ 40 سال سے تنہا زندگی بسر کر نیوالی طلعت فاطمہ کو کھانا پکانے کا شوق تو تھا لیکن انہیں یہ نہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ شوق ان کی ضرورت بن جائے گا۔

Image Source: Screengrab

ایک ویب چینل نے جب طلعت فاطمہ سے بات چیت کی تو انہوں نے بتایا کہ پیشے کے لحاظ سے ٹیچر ہیں۔ ان کے پاس ٹیچنگ کا 25 سال کا تجربہ ہے لیکن شوہر کے انتقال کے بعد جب انہیں کہیں ٹیچنگ کی جاب نہیں ملی تو انہوں نے ہوم فوڈ کا بزنس شروع کیا۔ طلعت کے مطابق ان کا تعلق لکھنؤ سے ہے اس لئے ان کے کھانوں میں ذائقہ بھی خوب ہے وہ اپنی والدہ کی بتائی ہوئی ریسیپی سے کھانا پکاتی ہیں جنہیں لوگ کافی پسند کرتے ہیں۔ تکہ بوٹی ، بریانی ، نہاری ، پائے ، پراٹھے، رول، سموسے ، اسٹفیڈ چکن بن غرض وہ سب کچھ بنالیتی ہیں۔

ان کی زندگی کا ایک افسوناک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ پچھلے چالیس سال سے اکیلے زندگی گزار رہی ہیں، ان کے شوہر کا تو شادی کے دو ماہ بعد ہی انتقال ہوگیا تھا اور ان کی کوئی اولاد بھی نہیں۔ ان کے والد اور بھائی بھی وفات پاچکے ہیں جبکہ کورونا کی وباء کے دوران انہوں نے اپنی دو سگی بہنوں، بھانجیوں اور داماد کو کھودیا، اب اس دنیا میں ان کا کوئی سگا رشتہ موجود نہیں۔

Image Source; Screengrab

طلعت کا کہنا ہے کہ یہ ہوم فوڈ کا بزنس ہی ان کی گزر بسر کا واحد ذریعہ ہے اور انہوں نے اپنے محدود وسائل میں اسے بڑی محنت سے سیٹ کیا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ ان کا یہ ہوم فوڈ بزنس اور بڑھے اور زیادہ سے زیادہ لوگ انہیں آرڈر دیں تاکہ وہ باآسانی اپنی ضروریات زندگی پوری کرسکیں۔

بلاشبہ ہمارے معاشرے میں پڑھی لکھی باہمت خواتین تو اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں اور معاشرے کے لئے کسی مثال سے کم نہیں لیکن ان خواتین کے ساتھ ہمیں ان عورتوں کو بھی سراہنا چاہیے جو پڑھی لکھی نہیں ، جن کے پاس وسائل بھی محدود ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی محنت سے معاشرے میں باعزت روزگار اختیار کرکے اپنی اور اہل خانہ کی کفالت کررہی ہیں۔

مزید پڑھیں: مالی مشکلات کا حل، باہمت خاتون نے تندور لگا لیا

حیدرآباد کی رہائشی شبنم عرف شبو دادا کی کہانی بھی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ہمت سے ہر مشکل کو حل کیا جاسکتا ہے۔ یہ خاتون اپنے گھر کے باہر ہی سائیکلوں میں پنکچر لگانے کا کام کرتی ہیں، بچوں کو سائیکل کرائے پر دیتی ہیں اور ان کو سائیکل چلانا بھی سیکھاتی ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ ان کے دونوں بیٹے تعلیم حاصل کریں اور پاکستان آرمی کا حصہ بن کر ملک وقوم کی خدمت کریں۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *