پریانتھا کمارا قتل کیس: 6 ملزمان کو سزائے موت، 9 کو عمر قید اور 1 کو پانچ سال قید کی سزا


0

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سیالکوٹ فیکٹری میں سری لنکن مینجر پر توہین رسالت کا الزام عائد کرکے بہیمانہ طور پر قتل کرنے کا الزام ثابت ہونے پر 6 افراد کو دو، دو بار سزائے موت کی سزا سنادی ہے، جبکہ 9 ملزمان کو عمر قید، ایک کو پانچ سال جبکہ 72 افراد کو دو، دو سال قید کی سزا سنادی ہے۔

تفصیلات کے مطابق گوجرانوالہ اے ٹی سی کی پریذائیڈنگ جج نتاشا نسیم نے پریانتھا کمارا کیس کی سماعت کی۔ انہوں نے کوٹ لکھپت جیل کے اندر تمام ملوث ملزمان کا فیصلہ سنایا، جس میں 88 ملزمان کو سزا سنائی گئی جبکہ ایک کو بری کر دیا گیا۔

Image Source: File

اس کیس میں عدالت کی جانب سے تیمور، محمد ارشاد، علی حسنین، عبدالرحمان، ابو طلحہ اور محمد حمیر کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہر مجرم پر 200,000 روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔

عدالت نے روحیل امجد، محمد شعیب، عمران ریاض، ساجد امین، ضیغم مہدی، احتشام زیب، علی حمزہ، لقمان حیدر اور عبدالصبور کو عمر قید کی سزا سنائی۔ اس کے علاوہ ان میں بھی ہر ایک پر 200,000 روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔

اس موقع پر عدالت نے ایک ملزم بلال کو الزامات سے بری کیا جبکہ ملزم علی اصغر کو پانچ سال قید کی سزا بھی سنائی۔ اس کے علاوہ 72 افراد کو چار ماہ قبل سیالکوٹ میں ایک سری لنکن شہری کے قتل میں ملوث ہونے پر دو دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔ مجموعی طور پر 89 افراد بشمول نو نابالغوں پر 12 مارچ کو فرد جرم عائد کی گئی۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عبدالرؤف وٹو کی سربراہی میں ایک خصوصی پراسیکیوشن ٹیم نے الزامات پیش کئے۔ استغاثہ نے پریانتھا کمارا کے ساتھی سمیت 43 گواہوں کو پیش کیا جنہوں نے توہین مذہب کے نام پر اسے تشدد سے بچانے کی پوری کوشش کی تھی۔

Image Source: Reuters

واضح رے متاثرہ 49 سالہ پریانتھا کمارا دیا وادنا، کو 3 دسمبر کو راجکو انڈسٹریز گارمنٹس فیکٹری کے مشتعل کارکنوں نے تشدد کرکے ہلاک کردیا تھا ، بعدازاں جسم کو آگ لگا دی تھی۔ پریانتھا کمارا، سری لنکن عیسائی، راجکو انڈسٹریز میں 10 سال سے بطور مینیجر فرائض سرانجام دے رہا تھا۔

بعدازاں پولیس نے 900فیکٹری ملازمین کے خلاف تشدد بھڑکانے اور درجنوں نامعلوم افراد کے خلاف دہشت گردی اور قتل کے الزام میں ایف آئی آر درج کی تھی۔ مبینہ طور پر سوشل میڈیا ویڈیوز اور 56 ملزمان کے موبائل فونز سے برآمد ہونے والی فوٹیج کے ذریعے مجرموں کا سراغ لگایا گیا۔ عوام نے ملزمان کے جرم کو ناقابل معافی قرار دیتے ہوئے، اسے سخت ترین سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

عینی شاہدین کے مطابق 3 دسمبر 2021 کو جب احتجاج پرتشدد ہوگیا اور سڑک بلاک کر دی گئی تو تھانے کے صرف تین اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے تھے، اگر ضلعی پولیس افسر حساس معاملے پر بروقت جواب دیتے تو قتل رک سکتا تھا۔ البتہ پولیس نے اس سے گریز کیا، لہذا انہوں نے لرزہ خیز واقعے کا ذمہ دار پولیس کی نااہلی کو ٹھہرایا تھا۔

اس واقعے کے نتیجے میں پاکستان میں غم و غصے اور مذمتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا، سیاست دانوں، علماء اور سول سوسائٹی کے اراکین نے تمام ذمہ داروں کے لیے فوری انصاف کا مطالبہ کیا تھا۔ اس سے قبل مولانا طارق جمیل اور علامہ طاہر محمود اشرفی نے سری لنکن ہائی کمیشن کا دورہ کیا اور سانحہ سیالکوٹ پر اظہار تعزیت کی تھی۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *