ساجد سدپارہ کو ماؤنٹ ایورسٹ سے کامیابی سے ریسیکو کرلیا گیا


0

معروف پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ کو منگل کے روز بحفاظت ریسکیو کرلیا گیا۔ انہیں نیپال کے شہر کھٹمنڈو میں ماؤنٹ ایورسٹ پر مہم کے دوران انہیں صحت سے متعلق مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

تفصیلات کے مطابق ساجد سدپارہ اس وقت کوہ پیماؤں کی ٹیم کے حصہ کے طور پر نیپال میں موجود ہیں۔ جس میں 69 سالہ فرانسیسی کوہ پیما مارک بٹارڈ اور تجربہ کار نیپالی کوہ پیما پاسنگ نورو شیرپا بھی شامل ہیں۔

Image Source: Twitter

فرانسیسی شہری نے ہمالین ٹائمز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مبینہ طور پر اس مہم کا مقصد ماؤنٹ ایورسٹ کے بیس کیمپ سے کیمپ I اور کیمپ II تک ایک نیا، ‘محفوظ’ راستہ تلاش کرنا ہے۔ کیونکہ ان دونوں کیمپوں سے، کوہ پیما آئس فال سیکشن کو عبور کیے بغیر دنیا کی بلند ترین چوٹی کو سر نہیں کر سکتے ہیں۔

اس ہی حوالے سے 11 نومبر کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر جاری کردہ پیغام میں نوجوان کوہ پیما ساجد سدپارہ نے مہم کے حوالے سے اپنے جوش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے بیس کیمپ سے کیمپ 1 تک کے ٹریک کا تذکرہ کیا، جسے انہوں نے ٹریک کو بی سی سے سی 1 کے نام سے لکھا۔

ذرائع کے مطابق، کیمپ 1 کے راستوں کی تلاش کے دوران، ساجد سدپارہ اعصابی خرابی (نروس بریک ڈاؤن) کا شکار ہوئے تھے، جنہیں فوری طور پر مقامی کوہ پیماؤں نے بچایا، جس کے بعد انہیں باندھ دیا گیا تاکہ انہیں بحفاظت واپس بیس کیمپ تک پہنچایا جا سکے۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان کوہ پیما کو بندھا ہوا ہے، وہ بظاہر چکرا رہے ہیں، جبکہ وہاں موجود ایک شخص انہیں پانی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ ٹھیک ہو جائے گا۔

اس سلسلے میں الپائن کلب آف پاکستان کے کرار حیدری نے ایک مقامی میڈیا کو بتایا کہ ساجد کو اونچائی کی بیماری لاحق ہوئی تھی، اس وجہ سے انہیں بیس کیمپ سے واپس بھیجنا پڑا تھا۔ ساتھ ہی کھٹمنڈو میں واقع پاکستانی سفارت خانے سے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے رابطہ کیا گیا کہ سدپارہ کو مکمل طبی معائنے کے لیے بحفاظت دارالحکومت پہنچا دیا گیا تھا۔ وہ اس وقت بھی کھٹمنڈو کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

واضح رہے اس سے قبل جولائی میں یہ خبر سامنے آئی تھی کہ ساجد علی سدپارہ نے اپنے والد سمیت تین لاپتہ کوہ پیماؤں کی لاشیں ڈھونڈ لی ہیں۔ وہ اس سال فروری میں کےٹو کی چوٹی پر جانے کی کوشش کے دوران ‘بوٹل نیک’ سے لاپتہ ہوگئے۔

بتایا گیا تھا مذکورہ کوہ پیما کی لااشیں شیرپا کے ذریعہ رکاوٹ کے نیچے دیکھی گئیں تھیں، علی سدپارہ، دو ساتھیوں کے ساتھ، جن میں آئس لینڈ سے جان سنوری سگورجنسن، اور چلی سے جوآن پابلو موہر پریتو کو 18 فروری کو تقریباً پہاڑ سے گمشدہ ہونے کے دو ہفتے بعد مردہ قرار دیا گیا تھا۔

یاد رہے تینوں کوہ پیماؤں کا 5 فروری کو بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوا تھا ،وہ بغیر کسی اضافی آکسیجن کے موسم سرما میں کے ٹو کو سر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ساجد علی سدپارہ کے مطابق انہوں نے والد محمد علی سدپارہ کی لاش کی کےٹو پر ہی تدفین کردی ہے، اور اس پر پاکستان کا جھنڈا لگا دیا، ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ لاشوں کو نکالنا مشکل تھا کیونکہ وہ بہت “تکنیکی اور خطرناک” ڈھلوان پر تھیں۔ ساتھ ہی انہوں نے ” پوری قوم کی محبت اور دعاؤں کا شکر ادا بھی کیا۔”


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *