کےٹو پر لاپتہ ہونے والے تینوں کوہ پیماؤں کی موت کی تصدیق


0

کے ٹو سے لاپتہ ہونے والے 45 سالہ مشہور ومعروف پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور ان کی ٹیم جس میں آئس لینڈ سے تعلق رکھنے والے 47 سالہ جان سنوری اور چلی سے تعلق رکھنے والے 33 سالہ جان پابلو کے حوالے سے ایک افسوناک خبر سامنے آئی ہے، خبر کے مطابق تینوں کوہ پیماؤں کی موت کی تصدیق کردی گئی ہے۔

کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور ان کی قوم کو آخری بار 5 فروری کو دوپہر کے وقت کے ٹو کے سب سے مشکل حصے بوتل نیک کی طرف دیکھا گیا تھا، بوتل نیک کے ٹو پہاڑ پر موقع ایک تنگ اقر دشوار گزار راستہ ہے جو چوٹی کی کل پیمائش یعنی 8 ہزار 6 سو 11 میٹر سے محض 300 میٹر پہلے واقع ہے۔

اس سلسلے میں جمعرات کے روز کوہ پیما محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد علی سدپارہ اور گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت راجہ ناصر علی خان نے جمعرات کے روز ایک پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے کوہ پیما اور ان کے ساتھیوں کی ہلاکت کی خبر کی تصدیق کی۔

محمد علی سدپارہ پاکستان کا وہ فخر ہے، جس نے دنیا کی 8 بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے کے بعد وہاں پاکستان کا جھنڈا لہرایا ہے۔ اگرچے اس کے ٹو سممٹ پر ان کے ہمراہ ان کے بیٹے ساجد علی سدپارہ بھی موجود تھے، تاہم ایک مقام پر جب ان کے بیٹے کے اکسجن ماسک میں خرابی پیدا ہوئی تو محمد علی سدپارہ نے اپنے بیٹے کو درمیان سفر سے واپسی بھیج دیا تھا۔

اس موقع پر غیر ملکی کوہ پیماؤں کے خاندانوں نے موقف اپنایا کہ تینوں کوہ پیما بہادر، باہمت اور مضبوط شخصیات کے مالک تھے جوکہ سردیوں میں کے ٹو سر کرکے عالمی ریکارڈ قائم کرنا چاہتے تھے، یہی نہیں جان سنوری کے آخری کال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ انہوں نے کے ٹو کو سر کرلیا تھا تاہم واپسی آتے ہوئے کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔

یہی نہیں”جان سنوری کے خاندان کی جانب سے چلی، آئس لینڈ اور خاص کر پاکستانی حکام سے اپنے پیاروں کی تلاش کے لئے کی جانے والی کوششوں اور عقیدت پر اظہار تشکر کیا۔ اہلخانہ کے مطابق کوہ پیماؤں کی تلاش میں ہماری ہماری امیدوں سے بڑھ کر تحقیقات اور ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا، یہ سب تعریف کے قابل تھا، ساتھ ہی انہوں نے امید ظاہر کی کہ مستقبل میں آنے والے کوہ پیماؤں کی حفاظت کو لیکر کام کیا جائے گا۔

پاک فوج کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اہلخانہ کا کہنا تھا کہ اس مشکل وقت میں پاک فوج کی خدمات انتہائی معاون رہی ہے، افرادی قوت سے لیکر وسائل کا زبردست استعمال کیا گیا ، جس پر ہم پاک فوج کے شکر گزار ہیں۔

اہلخانہ کے مطابق محمد علی سدپارہ، جان سنوری اور جان پابلو کی آپس میں ایک زبردست دوستی تھی، جسے ہم بےحد پسند کرتے کیا کرتے تھے، ہم اسے عزیز رکھیں گے جبکہ ہم ساجد علی سدپارہ کی زندگی اور حفاظت کے لئے بےحد خوش ہیں۔

جان سنوری کے خاندان کا کہنا تھا کہ ہمارے آئس لینڈی دل پاکستانی اور چلی گئی کے دلوں سے ڈھڑک رہے ہیں، ان سب لوگوں کا بےحد شکریہ جنہوں نے ان کی تلاش میں اپنا وقت لگایا، معاون الفاظ کا استعمال کرکے ہمارا حوصلہ اور ہمت بنے۔ جان سنوری، محمد علی سدپارہ اور جان پابلو ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔

“نیز ، جانو پابلو مہر کے خاندان کی حیثیت سے ، ہم ان سب کے ساتھ ایک جیسے جذبات اور شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جو اس تاریخی کارروائی میں شامل تھے، جس میں پاکستان اور گلگت بلتستان کی حکومتیں ، پاک فوج اور محمد علی سدپارہ کے خاندان کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔ ان کے مطابق سب کا تعاون اور دوستی اور اسکردو سے تعلق رکھنے والے لوگ، محمد علی سدپارہ، جانو پابلو، اور جان سنوری سے پیار کرنے والے اب ہمارے دلوں میں ہے۔ ہم مل کر ان کی وراثت کو جاری رکھیں گے۔

دوسری جانب گلگت بلتستان کی حکومت کی جانب سے جہاں محمد علی سدپارہ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا وہیں کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور ان کے بیٹے ساجد علی سدپارہ کا نام سول اعزاز کے لئے تجویز کیا گیا ہے۔ جبکہ اہلخانہ کے لئے فنانشل پیکج اور بچوں کے لئے اسکالرشپ کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی آبائی علاقے ان کے نام سے اسکول کی تعمیر اور گلگت ایئرپورٹ کا نام مرحوم کوہ پیما کے نام سے منسوب کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔

یاد رہے گزشتہ ماہ 10 رکنی نیپالی کوہ پیماؤں کی ٹیم کی جانب سے کے ٹو کو سر کیا گیا تھا ، جس کے بعد وہ دنیا کی پہلی ٹیم قرار دی گئی تھی جنہوں نے سردیوں کے موسم میں کے ٹو چوٹی کو سر کیا تھا۔

Story Credit: DAWN


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *