محمد علی سدپارہ کے بیٹے والد کی سلامت واپسی کے لئے پرامید


0

مشہور ومعروف کوہ پیما محمد علی سدپارہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کو 5 فروری کو دیکھا تھا، جب ہک کےٹو پہاڑ کو سر کرنے جارہے ہیں، تاہم کچھ سامان کی خرابی کے باعث انہیں 8200 میٹر کی مسافت پر انہیں واپس نیچے جانا پڑا، البتہ اس دوران ان کے حوصلے بہت بلند تھے، انہوں نے اپنے سفر کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

کوہ پیما محمد علی سدپارہ کے 20 سالہ بیٹے ساجد علی نے جیو ٹی وی کو ایک دیئے جانے والے انٹرویو میں بتایا کہ ان کے والد اس سفر کو لیکر بہت پرجوش تھے، وہ پاکستان کے پہلے کوہ پیما تھے جو سردیوں میں کے ٹو پہاڑ کو سر کرنے والے تھے۔

Image Source: Twitter

ساجد علی کے مطابق اس دوپہر جب آخری بار ان کی اپنے والد سے ملاقات ہوئی، تو انہوں نے آس پاس کے پہاڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، خدا نے پاکستان کو ایک خوبصورت تحفہ دیا ہے، لہذا ہم پاکستانیوں کو اس چوٹی پر چڑنے والا پہلا انسان ہونا چاہئے۔

ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں ساجد علی نے مزید کہا کہ آج ان کے والد کو کھوئے ہوئے 4 دن ہوچکے ہیں، اس دن سے لیکر اب تک کسی نے بھی میرے والد کو اب تک نہیں دیکھا ہے، وہ 8 ہزار فٹ کی اونچائی پر کہیں ہیں، لیکن سچ پوچھیں تو میں اب بھی ان کی واپسی کے لئے بہت پرامید ہوں، آپ دیکھیں میرے والد زندہ بچ جانے والے ہیں، جیسا کہ ہمیشہ ہوا ہے۔

والد محمد علی سدپارہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بیٹے نے بتایا کہ جب وہ سال 1976 میں پہاڑی گلگت بلتستان کے دور دراز گاؤں سدپارہ میں پیدا ہوئے تھے تو کسی نے نہیں سوچا تھا کہ وہ زندہ رہے گے۔ میری دادی نے 11 بچوں کو جنم دیا تھا ، ان میں سے صرف دو بچے زندہ رہے تھے ، جن میں ایک بیٹا اور بیٹی شامل ہے۔

Image Source: Twitter

تفصیلات کے مطابق کے ٹو سر کرنے کی اس مشق میں 45 سالہ پاکستانی محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے 47 سالہ جان سنوری اور چلی کے 33 سالہ جان پابلو مہر کو آخری بار جمعہ کے روز کے ٹو پہاڑ کے سب سے مشکل سمجھے جانے والے حصے پر دیکھا گیا تھا، جسے بوتل نیک کے نام سے جانا جاتا ہے، جو کہ ایک انتہائی مشکل اور دشوار گزار 300 میٹر کی ایک تنگ گلی نما ہے۔ جبکہ یہ جگہ ہیلی کاپٹروں کی چھت کے بالکل اوپر ہے، جو اب تین دن سے کررہے ہیں۔

واضح رہے پاکستان کے مشہور ترین کوہ پیماؤں میں سے ایک۔ہیں، جن کے پاس اعزاز ہے کہ انہوں نے دنیا کی 8 بلند ترین چوٹیوں کو سر کیا ہے، جبکہ اس میں ان کے بیٹے نے بھی ان کا خوب ساتھ دیا ہے۔

رپورٹروں سے اتوار کے روز گفتگو کرتے ہوئے ساجد علی سدپارہ کا کہنا تھا کہ بوتل نیک نامی مشکل مقام کے نیچے بیس کیمپ میں وہ رات بھر اس خیال سے اپنے والد کا انتظار کرتے رہے کہ انہوں نے اس سمت کو مکمل کرلیا ہوگا لہذا انہوں نے اپنے بیس کیمپ کے ٹینٹ کی لائٹ کو کھولے رکھا تاکہ وہ واپسی میں اسے دیکھتے ہوئے یہاں کی طرف اجائیں۔

یاد رہے اس قبل انہوں نے اپنے ایک دیئے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر آپریشن ان کی باڈیز کو ڈھونڈنے کے لئے کیا جارہا ہے تو سمجھ میں آتی ہے، یہ بات کے اسے جاری رکھا جائے کیونکہ 8 ہزار میٹر پر اس سردی میں 3،2 دن تک وقت گزارنا اور زندہ بچ جانے کے چانس ایک بڑی بات ہے۔

ڈان نیوز کی خبر کے مطابق آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ تینوں کوہ پیماؤں کی تلاش اور ریسکیو کا عمل منگل کے روز بھی جاری رہے گا، جوں ہی موسم میں تھوڑی بہتری آئے گی، تمام وسائل کو متحرک انداز میں استعمال کیا جاسکے گا۔

یہ آپریشن اب چوتھے روز میں داخل ہوچکا ہے، اس سلسلے میں ہونے والے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن میں زمینی اور ہوائی کوششیں کی جارہی ہیں۔ آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی، اور یہ تلاش رہے گی۔

خیال رہے پوری قوم اس وقت ایک بڑے معجزے کا انتظار کررہی ہے، سوشل میڈیا سائٹس پر ان کی زندگی سے جوڑے کچھ خوبصورت لمحات کی ویڈیوز وائرل ہیں، جس نے ایک جانب مداحوں کو افسردہ کرکے رکھ دیا وہیں سب دعا گزار ہیں کہ وہ خیریت کے ساتھ واپس آجائیں۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *