پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ لاپتہ ہوگئے،آپریشن جاری


0

پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ نے “کے ٹو” کو بغیر آکسیجن کے سر کرنے کا عزم کیا اور اپنے مشن پر روانہ ہوئے، بغیر آکسیجن کے اس چوٹی کو سر کرنا ایک عالمی ریکارڈ ہوگا۔

لیکن اس حوالے سے اب یہ خبر سامنے آئی ہے کہ محمد علی سدپارہ کی سربراہی میں کے ٹو کی چوٹی سر کرنے والی ٹیم کے ٹو کی انتہائی بلندی سے وقت مقررہ پر بیس کیمپ واپس نہیں پہنچی اور ان سے رابطہ بھی منقطع ہوگیا ہے۔ کوہ پیما ٹیم کی واپسی میں تاخیر کے باعث سرچ آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق علی سدپارہ اور ٹیم سے مواصلاتی رابطہ کل سے منقطع ہے، ٹیم مقررہ وقت سے کئی گھنٹے بعد بھی کیمپ تھری واپس نہیں پہنچ سکی۔ گزشتہ ماہ نیپالی کوہ پیماؤں کی دس رکنی ٹیم نے پہلی مرتبہ کے ٹو کو موسم سرما میں سر کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔

دوسری جانب پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدرپارہ کے کے ٹو مشن کے پایا تکمیل تک پہنچانے میں سوشل میڈیا پر پوری قوم ان کے لئے دعاگو ہے۔

محمد علی سدپارہ،ان کے ساتھی کو پیما آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے جے پی موہر کے قریبی عزیزوں اور ٹیم نے بتایا کہ تینوں نے جمعے کی شام تک آٹھ ہزار میٹر کا سنگ میل عبور کر لیا تھا جس کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ وہ جلد ہی اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے۔
محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ ابھی بھی چھ ہزار میڑ کی بلندی پر کیمپ تھری میں ہیں اور ان کا بھی تینوں کوہ پیماؤں کے ساتھ رابطہ نہیں ہوا ہے۔ وہ اب بیس کیمپ میں واپس آرہے ہیں۔

واضح رہے کہ ساجد سدپارہ بھی اپنے والد کے ہمراہ کے ٹو سر کرنے کی مہم میں شامل تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے کے باعث وہ نیچے کیمپ تھری پر آگئے۔ ٹورسٹ پولیس اسکردو کے مطابق ان تینوں کی تلاش کا آپریشن شروع کیا جاچکا ہے اور تمام تر ممکنہ اقدامات کیے جارہے ہیں۔

کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور ان کی ٹیم نے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کو سر کرنے کے اپنے سفر پر روانگی سے قبل مداحوں سے کہا تھا کہ “ہمیں اپنی دعاوؤں میں یاد رکھیں۔”

اس کے بعد جب بھی ان کے وائی فائی سگنل کام کرتے تو وہ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اپ ڈیٹ فراہم کرتے رہے اور بتایا کہ “چوٹی تک پہنچنے میں انہیں 14 گھنٹے لگ سکتے ہیں۔”

کچھ دن قبل اس مہم کے دوران موسم بہتر ہونے کی بناءپر تینوں آگے بڑھے تھے۔تاہم الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق جمعہ کے روز دوپہر کے وقت اچانک کے ٹو پر تیز ہواہیں چلنا شروع ہوگئیں تھیں اور محمد علی سدپارہ سمیت تین کوہ پیماؤں کا بیس کیمپ سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹرز نے ریسکیو مشن کا آغاز کردیا گیا ہے۔ تاہم کئی گھنٹے گزرنے کے بعد بھی کوئی رابطہ نہیں ہوسکا اور وہ لاپتہ ہیں۔

دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کی کُل اونچائی 8,611 میٹر ہے جو کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے صرف 200 میٹر کم ہے۔ اس کا شمار دنیا کے سب سے خطرناک ترین پہاڑوں میں ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق واپسی پر ہر چار کوہ پیماؤں میں سے ایک کی موت واقع ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے سر کرنے کی کوشش میں اب تک 87 کوہ پیما ہلاک ہو چکے ہیں۔

جب کہ پاکستان کے کوہ پیما محمد علی سدپارہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جنھوں نے 2016 میں سردیوں کی مہم جوئی کے دوران پہلی مرتبہ نانگا پربت کو سر کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے آٹھ ہزار میٹر کی آٹھ چوٹیاں فتح کرنے کے علاوہ ایک سال کے دوران آٹھ ہزار میٹر کی چار چوٹیاں سر کی ہیں۔

کوہ پیمائی کا شوق رکھنے والے محمد علی سدپارہ محمد علی سدپارہ کا تعلق گلگت بلتستان میں اسکردو کے علاقے سدپارہ سے ہے جو کہ مہم جوؤں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ محمد علی سدپارہ کے بیٹے بھی ان کےنقش قدم پر چل رہے ہیں اور انہوں نے کوہ پیمائی کی تربیت اپنے والد ہی سے حاصل کی ہے۔ اپنےوالد کی طرح انہیں بھی کے ٹو اور ماوئنٹ ایورسٹ فتح کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *