روبیہ ندیم کا موٹر سائیکل سیکھنا، شوق سے ضرورت کیسے بنا؟


0

آن لائن کار اور بائیک کی سروس نے جہاں عوام کو سہولت فراہم کی وہیں بہت سے لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع بھی پیدا کیے ہیں اور اس ذریعہ آمدنی سے مرد کیا خواتین بھی فائدہ اٹھا رہی ہیں اور اپنے اہل خانہ کی کفالت کر رہیں۔ لاہور کی روبیہ ندیم بھی ان خواتین میں سے ایک ہیں جنہوں نے نے موٹر سائیکل چلانا سیکھی تو اپنے شوق کے لئے تھے لیکن آج ان کا یہ شوق ان کی ضرورت بن گیا ہے۔ وہ پانچ بچوں کی ماں ہیں اور گھر کی کفالت کے لئے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کیلئے آن لائن بائیک سروس بائیکیا کی رائیڈر بن گئی ہیں۔

انڈیپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے روبیہ ندیم نے بتایا کہ گھر کے مالی حالات خراب ہوئے تو انہوں نے اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کی ٹھانی اور چونکہ موٹر سائیکل چلانا جانتی تھی، لہٰذا اسی سے کام شروع کیا اور وہ ایک بائیک رائیڈنگ سروس کا حصہ بن گئیں۔

Image Source: Screengrab

انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے کام سے خوش ہیں لیکن اکثر رائیڈز کے لیے کال کرنے والے ان کی آواز سن کر رائیڈ کینسل کردیتے ہیں، جس سے کبھی کبھار انہیں دکھ ہوتا ہے۔ تاہم بہت سے لوگ ایسا نہیں بھی کرتے اور جب وہ ان کے ساتھ رائیڈ لیتے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

روبیہ بائیک چلانے کے لیے دستانوں اور ہیلمٹ کے ساتھ ساتھ ڈھانچے کی شکل کا فیس ماسک استعمال کرتی ہیں۔ اس ماسک کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وہ اسے اس وجہ سے پہنتی ہیں کہ جو بھی ان کے ساتھ بیٹھے وہ انہیں خطرناک خاتون تصور کرے۔ وہ کہتی ہیں کہ رائیڈ کے دوران وہ سنجیدہ رہتی ہیں اور زیادہ بات چیت نہیں کرتیں۔ اکثر کام پر ان کا سات سالہ بیٹا عبدالرحمٰن بھی ان کے ساتھ جاتا ہے اور ان کے لیے نیویگیٹر کا کام کرتا ہے یہاں مڑنا ہے، اب یو ٹرن لینا ہے۔

Image Source: Screengrab

انہوں نے بتایا کہ جب میں نے یہ کام شروع کیا تو شوہر کو بہت زیادہ اعتراض ہوا کہ میرے ساتھ مرد سفر کریں گے۔ مگر وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے شوہر کو سمجھایا کہ محنت میں کوئی عار نہیں اور آہستہ آہستہ شوہر کو ان کی بات سمجھ آگئی کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کر رہی بلکہ گھر کے حالات بہتر کرنے کے لیے ان کا ساتھ دے رہی ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر کو ان پر پورا بھروسہ ہے، اس لیے اب انہیں اس کام پر کوئی اعتراض نہیں۔ 

مزید پڑھیں: کوئٹہ کی سڑکوں پر لڑکےکے بھیس میں موٹر سائیکل چلاتی  لڑکی

روبیہ ندیم کے مطابق کہ ان کی بائیک کافی پرانی ہے اور انہیں راستے میں کافی تنگ بھی کرتی ہے بلکہ کبھی کبھار راستے میں تو بند بھی ہوجاتی ہے جس سے انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے وہ کوشش کر رہی ہیں کہ کوئی نئی موٹر سائیکل مل جائے تاکہ ان کا کام اور گھر کے حالات میں مزید بہتری آسکے۔

دیکھا جائے تو پاکستان کے بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا بحران معمول کی بات ہے جس سے ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات متاثر ہوتی ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک خواتین کے موٹر سائیکل نہ چلانے اور پبلک ٹرانسپورٹ میں بد نظمی کی وجہ سے انہیں سخت مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا تھا لیکن پھر کچھ خواتین نے ہمت پکڑی اور اس روایت کو توڑ دیا۔ آج ہماری خواتین آن لائن ٹیکسی سروس اور بائیک سروس کے ذریعے اپنے اہل خانے کی روزی روٹی کا بندوبست کر رہی ہیں۔

کراچی کی ڈاکٹر ثنا احسان بھی ان خواتین میں سے ایک ہیں جو اپنی بائیک پر فارمیسی کے ساتھ شہر قائد کی سڑکوں پر نظر آتیں ہیں۔ وہ پچھلے پانچ سالوں سے فارمیسی کے شعبے سے وابستہ ہیں اور اپنی فیلڈ میں نوکری کے حصول کے لئے کافی مشکلات اور مایوسی کا سامنا کرنے کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا خود کا کام شروع کریں گی۔ اپنے والد کی طرف سے دئیے ہوئے پیسوں اور اپنی تھوڑی جمع پونجی سے پہلے گھر پر موجود بائیک کو چلانا سیکھا، پھر ایک بورڈ پرنٹ کروایا اوربورڈ کو بائیک پر لگا کر چلتی پھرتی فارمیسی بنالی۔

Story Courtesy: Independent Urdu


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *