ڈاکٹر ثنا اپنی موٹر سائیکل پر لوگوں کو دوائیاں پہنچاتی ہیں


-1

کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک معاشرے کی خواتین کی شمولیت نہ ہو ،اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے اسی طرح ہر کامیاب معاشرے کی تکمیل خواتین کی محنت اور کردار کے بغیر ممکن نہیں۔ اس بات میں شک کی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستانی خواتین ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہی ہیں ہمارے ملک کی خواتین چاہے کسی بھی طبقاتی نظام سے تعلق رکھتی ہوں نہ صرف ذہین ہیں بلکہ محنتی بھی ہیں۔ اور دیکھا گیا ہے کہ وہ سخت سے سخت حالات کا مقابلہ کرکے اپنے گھریلو معاملات کو بڑے احسن انداز میں نبھاتی ہیں۔

ڈاکٹر ثنا احسان بھی ان خواتین میں سے ایک ہیں جو کراچی کے علاقے گلستان جوہر کی رہائشی ہیں اور پچھلے پانچ سالوں سے فارمیسی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

Image Source: Screengrab

انڈیپینڈنٹ اردو سے بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر ثنا احسان نے بتایا کہ انہیں نے اپنی فیلڈ میں نوکری کے حصول کے لئے کافی مشکلات اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور ان سب مسائل سے تھک ہار کر انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا خود کا کام شروع کریں گی۔ وہ پچھلے پانچ سالوں سے فارمیسی کے شعبے سے وابستہ ہیں لیکن فارمیسی کھولنے کاسرمایہ ان کے پاس موجود نہیں تھا تو انہوں نے اپنے والد کی طرف سے دئیے ہوئے کچھ پیسے اور اپنی تھوڑی جمع پونجی سے پہلے گھر پر موجود بائیک چلانا سیکھی، پھر ایک بورڈ پرنٹ کروایا اور اس بورڈ کو بائیک پر لگا کر اپنی چلتی پھرتی فارمیسی کے ساتھ کراچی کی سڑکوں پر نکل پڑیں۔

Image Source: Screengrab

فیلڈ میں کام کرنے پر ثنا احسان کو جہاں گاہکوں کی طرف سے مثبت ردعمل ملا ہے وہیں دوسری جانب انہیں خاتون بائیکر ہونے کی وجہ سے ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے لیکن ان کے حوصلے پست نہ ہوئے اور وہ پوری محنت سے کام کرتی رہیں۔

ڈاکٹر ہونے کے ناطے وہ خدمتِ خلق کے جذبےسے سرشار ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ لوگوں کو میڈیکل آلات تک رسائی حاصل کرنے میں مدد کریں اور ان کو استعمال کرنے کے صحیح طریقے سے بھی آگاہ کریں۔ اس لیے جب بھی کوئی ان سے رابطہ کرتا ہے تو وہ نہ صرف ان کے لیے دوائیاں اور آلات خریدتی ہیں بلکہ مفت ڈلیوری کرنے کے ساتھ ساتھ مفت میڈیکل مشورہ بھی دیتی ہیں۔

Image Source: Screengrab

ڈاکٹر ثنااحسان کے مطابق ہمارے ملک میں مختلف فرمیسیز یا میڈیکل اسٹورز پر ایسے افراد کام کرتے ہیں جن کے پاس نہ تو ڈگری ہوتی ہے نہ ہی ٹریننگ ، اسپتالوں کی فارمیسی میں بھی ایک ٹیکنیشن کو فارماسسٹ پر برتری دی جاتی ہے اسی وجہ سے عام عوام جب اسپتالوں میں یا میڈیکل اسٹورز پر مختلف دوائیاں یا آلات لینے جاتے ہیں تو کوئی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کرتا۔ ان کا مزید کہناتھا کہ یہ طریقہ تبدیل ہونا چاہیے اور اس تبدیلی کی طرف انہوں نے اپنا پہلا قدم اٹھالیا ہے۔ ڈاکٹر ثنا احسان جیسی قابل اور محنتی لڑکیاں پورے معاشرے کے لئے مثال ہیں ۔

اس سے قبل شہر قائد کی باہمت خاتون فاطمہ نازش نے تندور کی دکان کھول کر اپنے چھوٹے سے کاروبار کا آغاز کیا، اس کے باوجود کہ لوگ ان کو یہی کہتے رہے کہ کوئی عورتوں والا کام کرو مگر انھوں نے یہی کام کرنے کی ٹھانی اور تمام تنقید اور مشکلات کے باوجود آج کام یا بی سے اپنا کاروبار چلارہی ہیں اور دوسروں کے روزگار کا ذریعہ بھی بنی ہوئی ہیں۔ اپنے اس تندور کے ذریعے فاطمہ نازش اپنے چار بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کررہی ہیں اور خاندان کو بھی مالی تعاون فراہم کرتی ہیں۔

مزید پڑھیں: اعلیٰ تعلیم کی خواہش رکھنے والی خاتون طالب علم کی امداد کی اپیل

بلاشبہ آج پاکستان کی خواتین میدانوں میں، فضاؤں میں خلاؤں میں ہر جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑتی پھر رہی ہیں یہ ان خاندانوں کی خواتین ہیں جہاں انہیں عزت دی گئی، جن کو انسان تسلیم کیا گیا۔ چاہے ان کا تعلق پسماندہ ماحول سے ہو یا شہر کے گھٹن زدہ ماحول سے ، انہیں جینے کا پورا پورا حق دیا گیا۔ ماں باپ نے انہیں اعتماد اور شعور دیا،اس لئے وہ کسی پر بوجھ نہیں ۔ یہ خواتین مذہبی و معاشرتی اقدار میں رہتے ہوئے زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں اور وہ دنیا کی خواتین سے کسی صورت پیچھے نہیں ہیں وہ نہ صرف گھر بلکہ خاندان میں اپنے آپ سے منسلک ہر رشتے کو بڑی خوبصورتی سے نبھارہی ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں خواہ وہ سیاسی ، ادبی ، کاروباری ، صحت ، تعلیم ، کھیل جیسا کوئی بھی شعبہ ہو، ہماری خواتین اپنے ملک کا نام روشن کررہی ہیں۔

Story Courtesy: Independent Urdu


Like it? Share with your friends!

-1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *