ہولی فیملی اسپتال کی ڈاکٹر کو ٹیکنیشن کیجانب سے ہراسگی کا سامنا


0

یہ ایک حقیقت ہے کہ جنسی ہراسانی کے خلاف قانون ہوتے ہوئے بھی دفاتر ،اسکول ، یونیورسٹی ،اسپتال غرض ہر جگہ خواتین کے ساتھ ہراسانی کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ تاہم اگر ایسے واقعات منظر عام پر آجائیں اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوجائیں تو ملزم کو پکڑلیا جاتا ہے، معاملے کی جانچ پڑتال کے لئے انکوائری کمیٹی مقرر ہوتی ہے اور اس کے بعد معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ملزمان کے حوصلے بڑھ رہے ہیں۔

اسی حوالے سے سوشل میڈیا پر راولپنڈی کے ہولی فیملی اسپتال کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں ایک لیڈی ڈاکٹر کو ہراساں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے لیڈی ڈاکٹر ایک مردسے بچنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ اس کا راستہ روک رہا ہے بلکہ داخلی دروازہ بھی بند کردیتا ہے اور اسے واپس اندر جانے کا کہہ رہا ہے۔ جب کہ وہاں پر موجود دیگر مرد تماشائی بنے ہوئے ہیں اور کوئی خاتون کی مدد نہیں کررہا۔ اس ویڈیو میں نظر آنے والا شخص دراصل اسپتال کا لیب ٹیکنیشن ہے۔

Image Source: Screengrab

ذرائع کے مطابق اسپتال انتظامیہ نے اس واقعہ کا ویڈیو ثبوت ہونے کے باوجود لیب ٹیکنیشن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ متاثرہ لیڈی ڈاکٹر کے مطابق اس شخص کا نام ہمدانی ہے اور وہ اس سے پہلے بھی دوبار اسے ہراساں کرچکا ہے۔ تاہم شکایت پر اس سے قبل بھی اسپتال انتظامیہ کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی لیکن پھر اسے رہا کردیا گیا تھا جب کہ واقعے کا قصوروار متاثرہ لیڈی ڈاکٹر کو ہی قرار دیا گیا تھا ۔

دوسری جانب ،سوشل میڈیا پر نامور اسپتال میں ہراسانی کا شکار لیڈی ڈاکٹر کی یہ ویڈیو بہت تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس کی وجہ سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یس آل مین کا ہیش ٹیگ ٹرینڈنگ پر ہے۔ صارفین ملزم کے خلاف کارروائی پر آواز بلند کر رہے ہیں۔

خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی کے واقعات روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ہو رہے ہیں بلکہ اس کے خلاف پوری دنیا میں آوازیں اٹھائی جارہی ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے لے کر ترقی پذیر ممالک تک جنسی ہراسانی کی کہانیاں منظر نامے پر آتی رہتی ہیں۔ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے خلاف #می ٹو جیسی مہم چلتی رہتی ہیں اور کافی حد تک ان جیسی آگہی کی مہمات کی شروعات سوشل میڈیا سے ہوتے ہوئے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر کچھ دن رہ کر خاموش ہو جاتیں ہیں۔ میڈیا پر جنسی استحصال کی مہم چلنے پر خواتین کو حوصلہ ملتا ہے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز بلند کریں اور ملوث ملزمان کو سخت سزائیں دلوائیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ یہ ملزمان تھوڑے دن تھانے میں گزار کر باہر نکل آتے ہیں اور پھر کوئی اور ان کی زیادتی کا نشانہ بنتا ہے۔

حالیہ دنوں میں کراچی کی مصروف ترین شاہراہ شارع فیصل پر ایک خاتون ٹیچر کو ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ٹیچر نے فیس بک پر ایک پوسٹ کی جس میں انہوں نے دو موٹر سائیکلوں پر سوار تین اوباش لڑکوں کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں جنہوں نے انہیں راستے میں ہراساں کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ لڑکے دیدہ دلیری سے ان کے رکشے کا پیچھا کرتے رہے اور چھیڑ چھاڑ، آوازیں کسنےکے ساتھ انہیں اشارے بھی کرتے رہے۔ ٹیچر نے ان لڑکوں کی ویڈیو بنائی اور اپنی پوسٹ میں اس ویڈیو کو وائرل کرنے کی درخواست بھی کی جس کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور ان اوباش لڑکوں کو گرفتار کرلیا۔


Like it? Share with your friends!

0

What's Your Reaction?

hate hate
0
hate
confused confused
0
confused
fail fail
0
fail
fun fun
0
fun
geeky geeky
0
geeky
love love
0
love
lol lol
0
lol
omg omg
0
omg
win win
0
win

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Choose A Format
Personality quiz
Series of questions that intends to reveal something about the personality
Trivia quiz
Series of questions with right and wrong answers that intends to check knowledge
Poll
Voting to make decisions or determine opinions
Story
Formatted Text with Embeds and Visuals
List
The Classic Internet Listicles
Countdown
The Classic Internet Countdowns
Open List
Submit your own item and vote up for the best submission
Ranked List
Upvote or downvote to decide the best list item
Meme
Upload your own images to make custom memes
Video
Youtube, Vimeo or Vine Embeds
Audio
Soundcloud or Mixcloud Embeds
Image
Photo or GIF
Gif
GIF format