مر نے سے پہلے انسان کیا محسوس کرتا ہے؟


0

اپنی زندگی کو کسی فلم کی طرح اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا، وقت کا تھم جانا، یا اپنے بدن سے روح کو نکلتا محسوس کرنا اتنا آسان عمل نہیں ہے۔

انسانی جسم لافانی نہیں ہے یہ زمین پر ایک مُدت سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا، عام طور پر جسم زمین پر کئی رنگ بدلتا ہے، بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپا یہ تمام علامات جسم کی پل پل موت کی طرف بڑھنے کی خبر دیتا ہے۔

Moat se phale

یہاں ہم جسم پر ظاہر ہونے والی چند ان علامات کا ذکر کریں گے جو جسم کے ایکسپائر ہونے سے کچھ گھنٹے قبل ظاہر ہوتی ہیں۔یہ علامات نشانیاں ہیں جسم کے لیے بھی اور اُس جسم کی روح سے محبت کرنے والوں کے لیے بھی کہ وقت بہت قریب آگیا ہے، ایسے موقع پر محبت کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ جسم کو تنگ نہ کریں اور اُسے کوئی ذہنی یا جسمانی تکلیف نہ پہنچاہیں تاکہ روح کے جسم سے جُدا ہونے کا یہ عمل آسان ہوجائے۔

جدیدسائنٹیفک رپورٹس میں شائع تحقیق بتایا گیا کہ بستر مرگ پر موجود فرد کے پیارے جو کہتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ اس پر کوئی ردعمل نظر نہ آئے مگر وہ رائیگاں نہیں جاتے، بلکہ موت کے منہ پر کھڑے افراد کو سکون پہنچاسکتے ہیں۔

Moat Se Phale

موت کا عمل آخری سانس لینے سے ایک ہفتہ قبل شروع ہو جاتا ہے۔ اس دوران صحت متاثر ہونے لگتی ہے۔ جسم کمزور پڑنے لگتا ہے، چلنے میں دشواری پیش آنے لگتی ہے اور غنودگی طاری رہتی ہے۔ آخری لمحات میں کھانا پینا مشکل ہونے لگتا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ موت سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے انسانی جسم میں تبدیلیوں کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔موت کے قریب آتے آتے انسان کی صحت گرنے لگتی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہٹا کٹا انسان سوکھ کر تنکا ہوجائے بلکہ جسم کے اندر سے کمزوری محسوس ہونے لگتی ہے۔

متاثرہ شخص کے اس مقام پر پہنچنے تک ہمیں یہ سمجھ آنے لگتا ہے کہ بس اب اس کی دو چار روز کی زندگی اور باقی ہے۔ بہت سے لوگ اس پورے عمل سے ایک ہی دن میں گزر جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ زندگی اور موت کے درمیان تقریباً ایک ہفتے تک رہتے ہیں۔ یہ صورت حال رشتہ داروں کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہے۔

ہر موت مختلف ہوتی ہے۔ آپ یہ طے نہیں کر سکتے کہ کس کو کیسی موت آئے گی.

Moat se phale
Image Source:Daily Pakistan

 چند ایسے کم عمر لوگوں کو مرتے وقت دیکھا گیا ہےکہ  ان کے لیے یہ قبول کرنا مشکل تھا کہ ان کا آخری وقت آ چکا ہے۔ موت کے پورے عمل کے دوران وہ بے چین ہی نظر آتےہیں۔لیکن  ان لوگوں کو سکون سے مرتے دیکھا ہے جن کی زندگی کے آخری دن خوش حالی اور اطمینان میں گزرےہوں۔

موت سے پہلے کی نشانیاں

موت سے چند گھنٹے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں ذیل میں درج ہیں۔

جب موت کا وقت قریب آتا ہے تو انسان کا رابطہ آہستہ آہستہ دنیا سے ٹوٹنا شروع ہو جاتا ہے اور ایسی نشانیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں جس سے ظاہر ہونے لگتا ہے کہ اس کا آخری وقت قریب آگیا ہے ذیل میں سائنسی  طور پرجانی گئی موت سے پہلے کی چند نشانیوں کا ذکر ہے

بھوک پیاس کا مٹ جانا۔

 جب جسم ایکسپائر ہونے کے بلکل قریب  چلا جاتا ہے تو انسانی حاجات جیسے بھوک اور پیاس کی ضرورت محسوس ہونی بند ہو جاتی ہے اور لاغر جسم مزید توانائی حاصل کرنے کے لیے خوراک کی درخواست بند کر دیتا ہے۔

دیگر انسانی حاجات ختم ہو جاتی ہیں

موت سے چند گھنٹے پہلے انسانی جسم پاخانہ اور پیشاب کی حاجت محسوس کرنا بھی بند کر دیتا ہے یہ گویا نشانی ہے روح کے جسم کو چھوڑنے سے پہلے کی۔

نیند میں اضافہ

مرنے سے چند دن قبل ہی مرنے والے کے حالات میں تبدیلیاں آنے لگتی ہیں ان میں سے ایک ہیں نیند میں اضافہ مرنے والا شخص زیادہ وقت نیند میں رہتا ہے اس کی بڑی وجہ اس کے میٹابولزم کی کمزوری ہوتی ہے جو آخری چند گھنٹوں میں ایسے ظاہر ہوتی ہے کہ جیسے مرنے والے پر بیہوشی طاری ہے۔

بےترتیب دل کی دھڑکن

ساری زندگی خون کو پمپ کرنے والے دل کی دھڑکنیں موت سے کُچھ دیر پہلے بے ترتیب ہوجاتی ہے اور نبض کو ہاتھ سے محسوس کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور یہ اشارہ ہے کہ اعضا اپنا وقت پُورا کر چکے ہیں اور عنقریب بجھنے والے ہیں۔ موت سے چند گھنٹے پہلے بہت سے لوگوں کے جسم مرجھا جاتے ہیں یا رنگت پھیکی پڑ جاتی ہے کیونکہ جسم میں خون کی روانی مزید کم ہو جاتی ہے

Moat se phale
I mage Source:google

جسم کا درجہ حرارت

جسم کا وقت جب ختم ہونے والا ہوتا ہے تو آنکھوں میں آنسو چمکتے ہیں، اور جسم کا درجہ حرارت گر جاتا ہے اور دوبارہ بحال نہیں ہوتا ایسے موقع پر اُسے شدید پسینہ بھی آسکتا ہے۔  اور اگر ان کی جلد کو چھوئیں تو وہ ٹھنڈی محسوس ہوتی ہے جسم کا درجہ حرارت کبھی بڑھتا ہے اور کبھی بہت کم ہوجاتا ہے، ٹھنڈا پسینہ آتا ہے اور جلد پیلی ہونی شروع ہوجاتی ہے جسکی ایک وجہ خون کی جسم میں ترسیل کا خراب ہونا ہے۔

محسوسات کم ہوجانا

روح جب جسم کو چھوڑنے کے لیے بلکل تیار ہو یعنی موت سے تقریباً 24 گھنٹے پہلے تو ہاتھوں پاؤں گھٹنوں کی جلد پر محسوسات ختم ہو جاتی ہیں اور ان کا رنگ بدلنا شروع ہوجاتا ہے اور یہ نیلا یا ارغوانی رنگ اختیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔

موت سے کُچھ گھنٹے پہلے جسم درد سے کراہتا ہے اور اُس پر خوف کی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں جس میں کپکپی وغیرہ طاری ہوسکتی ہے

سانس لینے کے انداز میں تبدیلی

یہ نشانی واضح نشانی ہے جس میں سانس اُکھڑنا شروع ہوتا ہے اور بے ترتیب ہوتا چلا جاتا ہے اور دھیرے دھیرے بُجھ جاتا ہے۔  منہ کھول کرسانس کھینچنا یا سانس کا اُکھڑنا، وقفے وقفے سے سانس کا مکمل طور پر رُک جانا۔ موت سے قبل مرنے والے کے سانس لینے کے انداز میں تبدیلی آجاتی ہے وہ عام طور پر لئے جانے والے سانس سے قدرے الگ ہوتی ہے۔ اس وقت مرنے والا اکھڑی اکھڑی یا تیز تیز سانسیں لیتا ہے اور دیکھنے والے کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرنے والے شخِص کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی ہے درحقیقت یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اس کا آخری وقت آگیا ہے اور اس کی سانسوں کی ڈور عنقریب ٹوٹنے والی ہے۔

ایسے مریض کے سانس لینے کے عمل میں تبدیلی لازمی امر ہوتا ہے۔ اس کا سانس بھاری ہو جاتا ہے اور سانس کے ساتھ آواز نکلنے لگتی ہے

الجھن کا سامنا

جب کوئی شخص مر رہا ہوتا تو بھی اس کادماغ متحرک ہوتا ہے لیکن بعض اوقات ہو سکتا ہے کہ اپنی اس حالت کی وجہ سے وہ الجھن کا شکار ہو جائے اور کسی کو پہچاننے میں غلطی کر بیٹھے تو اس وقت اس کے پاس موجود شخص کی زمہ داری ہے کہ اس کی صحیح رہنمائی کرے

وہ عجیب طرح کے بے چینی اور بے سکونی محسوس کرنے لگتا ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں کو باہم مروڑنے لگتا ہے اور بعض اوقات بیڈ سے اٹھنے کی کوشش بھی کر سکتا ہے جیسے وہ کسی چیز یا کسی شخص کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا ہو۔

عالم سکرات


مریض کو نظر کا فریب پیدا ہوتا ہے اور اُسے وہ محبت کرنے والے جو دُنیا سے رُخصت ہو چُکے ہیں نظر آنے شروع ہوتے ہیں وہ اُن سے باتیں کرتا ہے اور باتیں کر کے اچھا محسوس کرتا ہے اس لیے اگر آپ کسی ایسے فرد کے قریب ہیں تو ہرگز اُسے مت بتائیں کے اُس کے قریب جو اُسے نظر آ رہا ہے نہیں ہے یا اُسے نظر کا فریب ہو رہا ہے وگرنہ عین ممکن ہے کہ مریض آپ سے اُلجھے اور اچھا محسوس نہ کرے۔

میڈیکل سائنس اس حالت کو نہیں مانتی مگر میٹافزکس کے سمجھنے والےجانتے ہیں کہ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب رخصت ہونے والا لینے آنے والوں کو محسوس کرنے لگتا ہے اور دیکھنے لگتا ہے ایسے موقع پر اُس کے مُنہ سے کُچھ ایسے الفاظ نکلتے ہیں جنہیں سُن کر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اسے الوزن ہو رہا ہے۔

Moat se phale
Image Source:Marham

وہ اپنے مرے ہوئے عزیزوں کو بھی دیکھتے ہیں۔ وہ ایک تیز روشنی بھی دیکھتے ہیں جو ان کی جانب ایک تاریک سرنگ سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ احساس نیند اور جاگنے کے درمیان کی کیفیت جیسا تھا۔ گہری نیند کے دوران دماغ ایک ایسی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔ غیر موجود چیزوں کی موجودگی کا واہمہ

مرنے والے کے ساتھیوں کو آخری وقت میں کیا کرنا چاہیئے

کسی بھی شخص کی موت سے چند گھنٹے قبل اس کے اعضاء بند ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اس کا جسم کام کرنا بند کر دیتا ہے ایسے میں ان کے پیاروں کو ان کے پاس رہنے کی ضرورت ہے ۔ مرنے والے کو جس حڈ تک ارام دے سکتے ہیں دیں ۔ اس کے قریب بیٹھ کر نہ روئیں کیونکہ مرنے والا آپ کو سن رہا ہوتا ہے ایسا کرنے سے  مرنے والے کو تکلیف ہو سکتی ہے اور اگر مرنے والا مسلمان ہے تو اس کے سرہانے قرآن پاک کی تلاوت کریں یا کلمہ طیبہ کا ورد کریں۔

ایسے موقع پر مریض کیساتھ ہرگز زبردستی مت کریں، عام طور لوگ کلمہ پڑھانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں ایساہرگز ہرگز مت کریں اگر وہ مسلمان ہے تو اپنی زندگی میں اللہ کی وحدانیت کا اقرار اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کئی دفعہ کر چُکا ہوگا اور اس تکلیف کے وقت میں عین ممکن ہے کہ وہ کلمہ نہ پڑھ پائے اس لیے آہستہ آواز میں اُس کے قریب کلمے کا ورد کریں تاکہ وہ سُن سکے اور اگر ہمت میسر  ہو تو پڑھ بھی لے۔

درد سے کراہت، آہیں بھرنا، کھانا پینہ مکمل ترک کردینا، پیشاب اور پاخانہ کی کوئی حاجت محسوس نہ کرنا، آنکھوں کا پتھرا جانا، آنکھ میں آنسو بہنا، نبض کا انتہائی مدہم ہوجانا کے محسوس ہی نہ ہو، جسم کا درجہ حرارت گر جانا، جلد کی رنگت اور ہاتھوں اور پاؤں کا نیلا پڑنا اور سانسوں کا اُکھڑنا۔

مشاہدہ کیا گیا ہے اوردیکھا گیا ہے کہ جسم سے روح جب رُخصت ہوتی ہے تو ایسے لگتا ہے کہ مریض پرسکون سو گیا ہے اور کوئی شک نہیں کہ تکلیف جب ختم ہوتی ہے تو انسان گہری نیند سو جاتا ہے۔

اب آپ کو بتاتے ہیں کہ اکثر مرنے والوں کے چہرے پر مسکراہٹ، خوشی یا اطمینان کا احساس کیوں ہوتا ہے ۔ دماغ میں ایک ہارمون ہوتا ہے جس کو سیروٹونن کہتے ہیں اور یہی وہ ہارمون ہے جومرنے والوں کو جاتے جاتے بھی خوشی دیتا ہے۔

ایسے موقع پر مریض کے اہل خانہ بے بس اور لاچار ہوتے ہیں اور اُن کے اختیار میں نہیں ہوتا کے جانے والوں کو روک سکیں اس لیے یاد رکھیں جب انسان بے بس اور لاچار ہوجاتا ہے تب دُعا کام آتی ہے اس لیے خیر کی دُعا کریں اور کوئی شک نہیں کہ ہمارا رب بڑا ہی رحمن بڑا ہی رحیم بڑا ہی غفور ہے اور سُن رہا ہے اور دیکھ رہا ہے۔

ایسے موقع پر وہ لوگ جو کمزور دل ہیں یا اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتے مریض کے قریب نہ رہیں اور اُس کے قریب بلکل مت روئیں کیونکہ جسم کی سماعت کی حس کام کر رہی ہوتی ہے اور محبت کرنے والوں کو تکلیف میں دیکھنا بھی ایک تکلیف ہے اس لیے رخصت ہونے والی روح کے جسم کو اس تکلیف میں مبتلا نہ کریں اور اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور ایسے موقع پر Expire ہونے والے جسم کو سخت ہاتھ مت لگائیں اور نرم ہاتھوں سے اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیریں اور بار بار اُس کی جگہ تبدیل نہ کریں اور جتنا ممکن ہو اُس کے لیے سکون فراہم کریں تاکہ اُس پر یہ عمل آسان ہو سکے۔

جذباتی اور خود پر قابو نہ رکھنے والے افراد مریض سے دُور چلے جائیں کیونکہ اُن کے رونے دھونے سے مریض کو تکلیف ہوگی، مریض کو نرم ہاتھوں سے مساج کریں خاص طور پر سر کے بالوں میں بہت شفقت اور مُحبت سے اُنگلیاں پھیریں، مریض کے قریب بلکل اونچی آواز سے مت بولیں اور جس قدر ممکن ہو اُسے سکون فراہم کریں اور اگر اُس کی کوئی وراثت ہے تو ایسے وقت میں اخلاق کا تقاضہ ہے کہ ہرگز ہرگز اُس سے اُس کی دولت وغیرہ اور وراثت کی تقسیم وغیرہ کے متعلق مت پُوچھیں۔


Like it? Share with your friends!

0
Annie Shirazi

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *