وزارت انسانی حقوق کی طلباء کو یونیورسٹی سے نکالنے کی مخالفت


0

کہتے ہیں جب قسمت مہربان ہو تو پھر دنیا کی کوئی بھی طاقت آپ کو گرا نہیں سکتی ہے اور ایسا ہی کچھ دیکھا جارہا ہے یونیورسٹی آف لاہور (یو او ایل) کے طلباء معاملے میں بھی جہاں اب وزارت انسانی حقوق کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ سے درخواست کی گئی ہے کہ دونوں اسٹوڈنٹس کو دوبارہ سے داخلہ دیا جائے، جنہیں یونیورسٹی کی حدود میں ایک دوسرے کو گلے لگانے پر نکال دیا گیا تھا، جبکہ یونیورسٹی کے ردعمل کو اوور ریکشن بھی قرار دیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق 16 مارچ 2021 کو یونیورسٹی آف لاہور کے وائس چانسلر کے نام لکھے گئے خط میں وزارت انسانی حقوق کے پارلیمنٹری سیکٹری لال چند ملہی نے موقف اپنایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلباء پر اوور ریکشن دیا گیا ہے اور انہیں اپنی وضاحت میں کچھ بھی کہنے کا موقع نہیں دیا گیا یا واقعے کی مکمل تفصیلات کا معائنہ نہیں کیا گیا۔

Image Source: Twitter

یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے نام لکھے گئے خط میں انہوں نے یونیورسٹی کی کارروائی کو “اخلاقی پولیس کاری” قرار دیتے ہوئے کہا کہ کاؤنسلنگ کے ذریعہ اس طرح کے عمل کو کنٹرول کرنا چاہئے۔ تاہم ، ایسی خدمات زیادہ تر یونیورسٹی انتظامیہ فراہم نہیں کرتی تھیں۔

وزارت انسانی حقوق کے پارلیمنٹری سیکٹری لال چند ملہی نے مزید کہا کہ ان کی برخاستگی یقینی طور پر طلبہ کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ایک واضح معاملہ ہے۔ کیونکہ دونوں طلباء حدیقہ جاوید اقر شہریار احمد رانا کی جانب سے کوئی ایسا جرم نہیں کیا گیا ہے کہ انہیں اتنی سخت سزا دیتے ہوئے یونیورسٹی سے نکال دیا جائے۔ اس سے ان کا تعلیمی کیرئیر اور مستقبل میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع بھی تباہ ہو سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ خط میں کہا گیا ہے کہ اپنی مرضی سے شادی کرنے اور اپنی مرضی سے کسی کو پروپوز کرنے کی قانون اور آئین پاکستان میں اجازت ہے۔ لہذا یونیورسٹی کے اتنے سخت ردعمل کے باعث ناصرف ملک میں عوام کو بلکہ عالمی برادری کو ایک تشویشناک میسج گیا ہے کہ یہ چیز برداشت نہیں کی گئی، کہ دو طلباء ایک دوسرے کو شادی کے لئے پروپوز کررہے ہیں۔

اس معاملے پر لال چند ملہی نے زور دے کر کہا کہ “سخت سزا” انصاف کے منافی ہے اور اس سے معاشرے میں “انتہائی منفی نتیجے” مرتب ہونگے۔ لہذا میں اس بات کا اعادہ کروں گا کہ یہ فیصلہ بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔

پارلیمانی سیکرٹری وزارت انسانی حقوق نے خط میں یونیورسٹی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے اور طلباء کے داخلے کو بحال کرے۔

یاد رہے چند روز قبل لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں پروپوز کرنے کا واقعہ منظر عام پر آیا تھا، جس میں ایک لڑکی ایک مخصوص انداز میں گھوٹنے پر بیٹھ کر لڑکے کو شادی کی پیشکش کرتی جو لڑکا قبول کرتا ہے اور پھر دونوں بغلگیر ہوجاتے ہیں۔ وہاں پر موجود دیگر طلباء نعروں اور تالیوں کی صورت میں انہیں خوب پذیرائی دیتے ہیں۔

اس دوران جب یہ بات یونیورسٹی انتظامیہ تک پہنچتی ہے تو انتظامیہ کی جانب سے جمعے کے روز ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا ہے، جس میں بتایا جاتا ہے کہ طلباء کو فوری درعمل کے طور ڈسپلنری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت جاری کی گئی تھی تاہم دونوں طالب علم پیش نہ ہوئے، لہذا اس غیر اخلاقی سرگرمی کے باعث یونیورسٹی کی جانب دونوں طالب علموں کو یونیورسٹی سے نکال دیا گیا اور ان کے یونیورسٹی کی حدود میں داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اگرچہ لڑکی کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے، اس بات کو واضح کیا تھا کہ یہ عمل کسی طور پر بھی شہرت حاصل کرنے کا طریقہ نہیں تھا۔

واضح رہے دونوں طلباء کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی یے کہ دونوں طلباء اب رشتہ ازدواج میں منسلک ہوچکے ہیں۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *