کراچی میں چائے کے ہوٹل پر معصوم ویٹر پر وحشیانہ تشدد


1

کراچی میں واقعے ایک چائے کے ہوٹل میں خوفناک واقعہ پیش آیا جس میں ویٹر نے بچے کو بغیر اجازت ٹوائلٹ جانے پر تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔

تفصیلات کے مطابق کراچی کے رہائشی علاقے یوپی موڑ پر واقع انشاء اللہ ماشاء اللہ نام سے ایک ہوٹل میں کام کرنے والے بچے کو اس کے ساتھی ویٹر نے بے رحمی سے مرا پیٹا، ویٹر کے اس وحشیانہ تشدد کی وجہ صرف اتنی تھی کہ بچہ بغیر اجازت لئے واش روم چلاگیا تھا۔

اس افسوسناک واقعے کی ویڈیو ریکارڈ کرنے والے شخص کے مطابق ، اس نے ویٹر کو چھوٹے بچے کو جب بے رحمی سے مارتے پیٹتے دیکھا تو ویٹر کے پاس پہنچ گیا ۔ تاہم ویٹر نے ابتداء میں تو جھوٹ بولا کہ اس نے بچے کو نہیں مارا بلکہ بچہ زیادہ کام کی وجہ سے بیہوش ہوگیا ہے یا پھر تھکن سے سوگیا ہے۔ لیکن ویڈیو ریکارڈ کرنے والے شخص کی مزاحمت پر لڑکے کو پھر کمرے سے باہر لایا گیا۔

ویڈیو کو دیکھنے کے لئے لنک پر کلک کریں

بچے کی ابتر حالت سے یہ انکشاف ہوا کہ واقعی اس کے ساتھی ویٹر نے اسے پیٹا ہے۔ بچے کو زدو کوب کرنے پر غم وغصے سے مشتعل لوگوں نے ویٹر کوگھیر لیا اور فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی ۔ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ہوٹل کے ویٹر کو گرفتار کرلیا اور اس کے خلاف سر سید ٹاؤن پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرلی۔

ویڈیو کو دیکھنے کے لئے لنک پر کلک کریں

افسوس کہ پاکستان میں غربت کے وجہ سے معصوم اور غریب بچے اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لئے روز مرہ دہاڑی پر مزدوری کرنے پر مجبور ہیں اور جہاں دیکھا گیا ہے کہ عموماً ان بچوں کے ساتھ مالکان ناروا سلوک برتے ہیں۔ پھول جیسے ننھے بچوں کی محنت مزدوری چائلڈ لیبر ہے ، جس سے ان بچوں کااستحصال ہو رہا ہے۔

ویڈیو کو دیکھنے کے لئے لنک پر کلک کریں


عالمی ادارہ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق ، پاکستان میں قریب 8 لاکھ بچے (5 سے 14 سال کی عمر کے بچے) اسکول جانے کے بجائے محنت مزدوری کر رہے ہیں اور ان میں سے بیشتر اپنے کنبے کی کفالت کرنے پر مجبور ہیں۔

واضح رہے کہ چائلڈ لیبر کے خلاف حکومت نے کچھ سخت قواعد و ضوابط بنائے ہیں۔ جولائی 2020 میں ، وفاقی کابینہ نے ملک میں گھریلو بچوں کی مزدوری کے خلاف ایک بل کی منظوری دی ہے جبکہ اس بل کے حوالے سے انسانی حقوق کی وزیر شریں مزاری نے کہا کہ بل پر مزید کام مکمل ہونے کے بعد اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

اس بل کے مطابق ، 14 سال سے کم عمر کے کسی بھی بچے کو گھریلو مزدوری کے طور پر ملازمت نہیں دی جاسکتی ہے۔ مزید یہ کہ ، اگر کسی کو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا گیا ہے ، تو اس کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور سزا دی جائے گی۔ ایسے بلوں پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہم آئے دن معصوم بچوں جو گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرتے ہیں ،پر مالکان کے وحشیانہ تشدد اور قتل کے واقعات سنتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھی 8 سالہ ملازمہ کو مالکان کی جانب سے اتنا زدوکوب کیا گیا کہ وہ دم توڑ گئی ۔بچوں پر تشدد کی یہ گھناؤنی مثالیں ہمارے معاشرے کی بےحسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

بحیثیت پاکستانی ، ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئیے کہ بچوں اسکولوں میں پڑھتے لکھتےاور کھیل کود کرتےاچھے لگتے ہیں ۔ ان کے ننھے ہاتھ کام کرنے کے لئے نہیں بلکہ پینسل پکڑنے کے لئے بنے ہیں ، یہ معصوم فرشتے تپتی دھوپ سہنے کے لئے نہیں بلکہ ہسنے مسکرانے کے لئے دنیا میں آئے ہیں ان معصوم کلیوں سے ان کا بچپن نہیں چھینیں ۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم یہ عہد کریں کہ بحیثیت قوم پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کےخلاف اجتماعی طور پر کھڑے ہوں اور تاکہ ایسے دل خراش واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے۔


Like it? Share with your friends!

1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *