کرن اشتیاق نے معذوری کو چیلینج سمجھ کر قبول کیا


0

ذرا سی ہمت اور کچھ کر دیکھانے کی جستجو کامیابی کے سفر میں اپنا لئے راستے خود بنالیتی ہے، رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والی کرن اشتیاق جو کہ پیدائشی طور پر دونوں ہاتھوں اور ٹانگوں سے محروم ہیں لیکن کسی کی مدد کے بغیر منہ سے قلم پکڑ کر لکھتی ہیں۔

بلاشبہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں نمایاں مقام کا حصول عام افراد کے لیے کامیابی گردانا جاتا ہے لیکن اگر جسمانی طور پر معذوری کا شکار شخص کوئی ایسی کامیابی حاصل کرلے تو یہ کسی بڑے کارنامے سے کم نہیں ہوتا۔

چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والی اس باصلاحیت لڑکی کو پڑھنے کا بہت شوق ہے اس لئے انہوں نے اپنی جسمانی معذوری کو کبھی بھی اپنے لئے کمزوری یا رکاوٹ نہیں بننے دیا، بلکہ اسے زندگی میں کامیابی کے لیے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔

یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں اگر حوصلے بلند ہوں تو مشکل سے مشکل رکاوٹیں بھی عبور کرنا آسان بن جاتی ہیں، کرن اشتیاق نے اپنی ہمت سے اس بات کو سچ کر دیکھایا ہے اور وہ معذوری کو شکست دے کر اپنی منزل کی جانب گامزن ہیں۔ ویل چیئر پر بیٹھی، دونوں ہاتھوں اور ٹانگوں سے محروم چہرے پر مسکراہٹ سجائے یہ باہمت لڑکی منہ سے قلم پکڑ کر لکھتی ہے۔ یہ ذہین طالبہ جب قلم سے لکھتی ہے تو سب کو حیرت میں ڈال دیتی ہے، کمپیوٹر چلانا ہو یا موبائل پر کام کرنا ہو، کرن سب کمال مہارت سے کر لیتی ہے اور کسی کی محتاج نہیں۔ اسی ہمت کی بدولت کرن اشتیاق نے میٹرک کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن حاصل کی اور اب وہ خواجہ فرید کالج میں بی ایس انگلش کی طالبہ ہے۔

اس دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا ہے۔ کوئی دولت ، شہرت اور اقتدار کے ذریعے تو کوئی غربت، بھوک وافلاس اور کوئی صحت و تندرستی اور طاقت کے ذریعے تو کوئی بیماری اور معذوری کی صورت میں آزمائش کا سامنا کررہا ہے۔

کرن اشتیاق بھی اپنی معذوری کے باوجود اپنے کٹھن راستے کی ہر رکاوٹ کو عبور کرتی جارہی ہیں۔ وہ والد کی شفقت سے محروم ہیں لیکن ان کی فیملی انہیں ہر قدم پر بہت سپورٹ کرتی ہے۔ معذوری کی وجہ سے انہیں بھی کئی مسائل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن چٹان حوصلوں کی مالک کرن اشتیاق کا بس ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے زندگی میں مسلسل آگے بڑھنا اور کامیابیاں سمیٹنا۔ یقیناً وہ تمام معذور بچوں کے لیے امید کی کرن ہیں۔

وہ مستقبل میں ڈاکٹر بن کر ملک کو قوم کی خدمت کرنا چاہتی ہیں۔ کرن اشتیاق کی یہ خواہش ہے کہ اپنے جیسے خصوصی افراد کے لیے کام کریں۔ یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ اگر اس مشکل راستے میں ان کو حکومتی سرپرستی مل جائے تو ان کا یہ جذبہ اور بھی بڑھ جائے گا کیونکہ معاشرے کے باہمت افراد کی حوصلہ افزائی ہمارا مذہبی، اخلاقی، معاشرتی اور قومی فریضہ ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *