جاپانی اسکولوں میں طالبات کے ‘پونی ٹیل’ بنانے پر پابندی لگ گئی


0

جاپان کے جنوبی شہر فوکوکا کے اسکولوں میں طالبات کے ‘پونی ٹیل’ ہیئر اسٹائل پر پابندی عائد کردی، جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ لڑکیوں کے پونی ٹیل کرنے سے ان کی گردن کا عقبی حصہ نمایاں ہوتا ہے جو کہ اسکول میں پڑھنے والے لڑکوں میں جنسی ہیجان کا باعث بن سکتا ہے جبکہ اس حوالے سے لڑکوں نے شکایات بھی کی ہیں۔

Image Source: Unsplash

جاپان کے اسکولوں میں قواعد و ضوابط کا سختی سے خیال رکھا جاتا ہے جبھی بعض اسکولوں نے طالبات پر ‘پونی ٹیل’ بنا کر اسکول آنے پر پابندی لگادی ہے۔ اس حوالے سے مڈل اسکول کے سابق استاد موٹوکی سوگیاما نے وائس ورلڈ نیوز کو بتایا کہ بہت سے اسکول ایسے قوانین کے خلاف نوٹسز کو نظر انداز کر دیتے ہیں کیونکہ وہ قانونی طور پر پابند نہیں ہیں یا ان پر کوئی جرمانہ نہیں ہے۔

سال 2020ء میں کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق جاپان کے دس میں سے ایک اسکول نے  طالبات کے پونی ٹیل اسٹائل پر پابندی عائد کررہی ہے جبکہ گذشتہ روز فوکوکا کے تمام اسکولوں میں اس قانون کو نافذ کر دیا گیا ہے۔

Image Source: Getty Images

واضح رہے کہ جاپان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اسکولوں میں غیرمعمولی اور مضحکہ خیز حد تک عجیب و غریب قوانین نافذ ہیں جہاں اسکرٹ کے سائز ، بھنوؤں کا انداز، موزوں کا رنگ سمیت بالوں کو رنگنے پر بھی پابندی ہے۔ اس کے علاوہ اسکولوں میں طالبات کو اپنے بالوں گھنگریالے کرنے پر بھی پابندی ہے اور اگر کسی طالبہ کے بال قدرتی طور پر گھنگریالے ہیں تو اس کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ یہ مصنوعی نہیں ہیں بلکہ قدرتی ہیں۔

ٹوکیو میٹروپولیٹن حکومت کے زیر انتظام 177 ہائی اسکول ان طالبات کے والدین سے اس بات کا سرٹیفکیٹ لیتے ہیں۔ تاہم پچھلے سال جون میں، ان قوانین پر طلباء اور والدین نے احتجاج کیا اور جاپانی حکومت کو تمام پریفیکچرل بورڈز سے اسکول کے عجیب و غریب قوانین پر نظر ثانی کرنے کو کہا۔

Image Source: Getty Images

خیال رہے کہ جاپانی اسکولوں میں نافذ ان سخت قوانین کو بوراکو کوسوکو یا “سیاہ اصول” کہا جاتا ہے اور ان قوانین کی جڑیں 1870 کی دہائی سے ملتی ہیں۔ اس وقت، جاپانی حکومت نے اسکولوں میں غنڈہ گردی اور تشدد کو کم کرنے کے لیے اسکولوں میں پابندیاں نافذ کیں تاہم اب جاپانی عوام اسکولوں سے یہ فرسودہ اور جنس پرست قوانین کو ترک کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

دوسری جانب ، اگر پاکستان کی بات کریں تو گزشتہ برس خیبر پختونخوا میں واقع ہزارہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے بھی طلباء، اساتذہ اور فیکلٹی کے تمام اراکین کے لئے ڈریس کورڈ جاری کردیا، جس پر یونیورسٹی انتظامیہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ اس اقدام سے یہ بات فروغ دینا چاہتے ہیں کہ طلباء کپڑوں نسبت پڑھائی پر زیادہ توجہ دیں۔

انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق تمام خواتین طالبات اور خواتین اسٹاف سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ چست جینز اور شرٹ کے بجائے برقعہ، اسکارف اور شلوار قمیض پہنیں نیز بہت زیادہ میک اپ، جیولری اور بڑے بڑے ہنڈ بیگز یونیورسٹی لیکر آنے سے گریز کریں جبکہ مرد طلباء کو چست جینز، شارٹس یعنی (تھری کوارٹرز) ، چینیں اور چپل پہن کر آنے کی اجازت نہیں۔اس کے ساتھ لمبے بال اور پونیاں (چوٹیاں) باندھ کر آنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *