آج 74 برس بعد بھی راولپنڈی میں اپنا گھر دیکھنے کی تمنا ہے


0

پاکستان اور ہندوستان اپنی آزادی کی 74 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ لیکن آزادی کی اس خوشی میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں، جنہیں تقسیم ہند کے وقت اپنا گھر بار چھوڑ کر سرحد پار رہنے کا غم جھیلنا پڑا ہے۔ دونوں ملکوں درمیان اس بٹوارے کے 74 سال گزرنے کے باوجود آج بھی یہ لوگ صرف ایک بار اپنا وہ گھر دیکھنے کی حسرت لیے جی رہے ہیں جہاں یا تو وہ خود یا ان کے خاندان کے بڑے بوڑھے رہا کرتے تھے۔

بھارت کے شہر پونا میں رہنے والی رینا چبرورما (توشی آنٹی) بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہیں۔ وہ اگلے سال 90 برس کی ہوجائیں گی لیکن آج بھی ان کا دل راولپنڈی کی یاد میں بےچین ہیں۔ وہ جنوری 1932 میں پاکستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئیں، ان کا تعلق ایک پڑھے لکھے روشن خیال گھرانے سے ہے۔ ان کے والد برطانوی حکومت میں آفیسر تھے۔ تقسیم سے قبل راولپنڈی میں ان کی رہائش دیو کالج روڈ پر تھی۔ جس کے پاس کمپنی گارڈن اور گورڈن کالج موجود تھے۔ جو اب لیاقت باغ اور لیاقت روڈ کے نام سے جانے جاتے ہیں انہوں نے ماڈرن اسکول راولپنڈی سے 14 برس کی عمر میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔

Image Source: Screengrab

خبر رساں ادارے انڈپینڈنٹ اردو سے اپنے زمانے کے پنڈی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، وہاں سب محبت سے رہتے تھے۔ کچھ ملنے والے مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کے گھروں میں کھانا پینا درست نہیں سمجھتے تھے، ان سے اختلاف کے بجائے سوچ کا احترام کیا جاتا تھا۔ لیکن زیادہ تر لوگ ان باتوں کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ بڑی بہن کی سہیلی غلام فاطمہ اور بھائی کے دوست شبیر انہیں آج بھی یاد ہیں جو ایسے ملتے اور گھر میں ایسے کھاتے پیتے تھے جیسے ان کا اپنا گھر ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہم نصابی کتابوں میں ہمیشہ پڑھتے رہے کہ فسادات میں مسلم خاندانوں کو کیسے نیزے میں پرویا گیا۔ لیکن یہ فسادات یک طرفہ نہیں تھے۔ ہندو اور سکھوں کو بھی ایسے ہی دنگے فسادات اور حملوں کا سامنا تھا۔ توشی آنٹی بتاتی ہیں کہ 1947 کے فروری مارچ سے راولپنڈی میں بھی فسادات شروع ہوگئے۔ اس وقت گلیوں میں باری باری پہرہ دیا جانے لگا۔ ایک گھر کے بڑے سے حصے میں پورے محلے کے لیے جگہ بنادی گئی تاکہ شرپسندوں کے حملے کے وقت سب ایک جگہ جمع ہوجائیں۔ جن گھروں میں بیٹیاں تھیں وہ لوگ بہت پریشان تھے۔

فوج کے ایک میجر صاحب انہیں اور محلے کی دیگر لڑکیوں کو فوجی کیمپ میں لے گئے چند دن بعد حالات بہتر ہونے پر گھر واپس آگئے۔ کچھ دن بعد توشی آنٹی کی والدہ مارکیٹ گئیں تو حالات پھر کشیدہ ہوگئے اور دکانیں بند کرادی گئیں۔ وہاں ایک جاننے والے درزی جن کا نام شفیع تھا، انہوں نے ان کی والدہ کو اپنی دکان میں چھپالیا۔ کئی گھنٹے بعد صورتحال بہتر ہونے پر وہ ان کی بے جی کو خود گھر چھوڑ کرگئے۔

Image Source: Screengrab

ان کا خاندان تقسیم کے اعلان سے ایک ماہ مئی 1947 میں قبل ہندوستان چلا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ہر سال گرمیوں کی چھٹیاں مری میں گزارتے تھے اس سال ممی پاپا نے ہمیں شملہ بھیج دیا۔ دو ماہ بعد وہ بھی ضروری سامان سمیٹ کر ہمارے پاس آگئے۔ اس دوران دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ تقسیم ہوگئی لیکن ہم سب کے وہم و گمان میں بھی کہیں یہ نہیں تھا کہ ہم واپس اپنے گھر نہیں جائیں گے۔

ممی نے ہمیں وہاں گھر نہیں لینے دیا کہ ہم واپس پنڈی اپنے گھر جائیں گے۔ ممی تو اپنا گھر چھوڑنے کا سوچ ہی نہیں سکتیں تھیں، کہتی تھیں کہ پہلے برٹش راج تھا اب مسلمانوں کو ہوگا تو کیا ہوا، تقسیم ہم سے ہمارا گھر تھوڑی چھین سکتی ہے۔ لیکن پھر ماحول ایسا بن گیا کہ ہم کبھی بھی اپنے گھر واپس جا ہی نہیں سکے۔

Image Source: Screengrab

آج 74 برس گزرنے کے بعد بھی تقسیم کی لکیر ان کے دل سے اپنے شہر کی محبت نہیں نکال سکی۔ کہتی ہیں کہ عمر کا کوئی بھروسہ نہیں کاش ایک بار اپنا گھر دیکھ سکوں۔ ایسا نہیں کہ انہوں نے پاکستان آنے کی کوشش نہیں کی ، انہوں نے کئی بار پاسپورٹ بنوایا لیکن وہ پنڈی نہیں آسکیں۔ 1954میں جب لاہور میں ہونے والے پاک بھارت میچ میں حکومت ِپاکستان نے بغیر ویزہ آنے کی سہولت دی تو انہوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور لاہور کا دورہ کیا۔

توشی آنٹی نے بتایا کہ فیس بک پر ان کے کئی پاکستانی فرینڈز ہیں جن میں سے ایک پنڈی سے تعلق رکھنے والے سجاد حیدر بھی ہیں جنہوں نے ان کے گھر کی تصاویر اور ویڈیوز ان کو بناکر بھیجیں ہیں۔ وہ گھر جو آج بھی ان کے خوابوں میں آتا ہے بالکل ویسا ہی ہے جیسا ان کے بچپن میں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹھیک ہے وہاں کوئی اور رہتا ہے لیکن مجھے تو وہ آج بھی اپنا گھر لگتا ہے۔

تقسیم ہند پر توشی آنٹی کا کہنا ہے کہ دو ملک بننے تھے بن گئے لیکن تقسیم کے وقت جو خون خرابہ ہوا، اس سے دل دکھتا ہے، جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہمیں اس سب کو بھول کر انسانیت کو آگے رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وہ خون خرابہ دنگے فساد اپنی آنکھوں سے دیکھے لیکن ہمارے دلوں میں پھر بھی نفرت نہیں پھر یہ آج کل کے بچے جنہوں نے تقسیم کا زخم براہ راست نہیں سہا ان کے اندر ایک دوسرے سے اتنی نفرت کیوں ہے؟ مزید کہا کہ اپنے اپنے مذہب پر سختی سے عمل کرنے کے ساتھ اگر ہم ایک دوسرے کے مذہب کا بھی احترام کرنے لگیں تو سب اچھا ہوجائے گا، جو ماضی میں ہوچکا اسے بھول کے آگے بڑھنا چاہیے، اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنا تو سیکھ سکتے ہیں۔

Image Source: Independent Urdu


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *