گاہنا میں میتوں میں ڈانس کرنے والا گروپ ایک بار پھر وائرل ۔۔


0

 براعظم افریقہ کے چھوٹے سے ملک گاہنا سے  تعلق رکھنے والے ڈانسنگ کوفن پال بئیر جوں تو آج پوری دنیا میں شہرت حاصل کرچکے ۔۔ لیکن اس بار انکی  وجہ  شہرت بنی ہے کورونا وائرس کی جنگ میں دنیا پھر میں کام کرنے والے ڈاکٹرز ہیں ۔ڈانسنگ کوفن پال بئیر کے مرکزی کردار بنجے مین ایڈو نے اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو پوسٹ کی۔ جس میں ان سمیت انکے 6 ساتھی  موجود تھی۔۔ ہر دفعہ کی  طرح اس دفعہ بھی  اپنا مخصوص لباس پہنا ۔۔ پورے گروپ نے سر سے پاؤں  تک سفید رنگ کا  لباس پہن رکھا تھا ۔۔ جبکہ چہرے پر سفید رنگ کے فیس ماکس بھی پہنے ہوئے تھے۔۔ اس ویڈیو میں انہوں نے تمام کام کرنے  والوں ڈاکٹروں کو خراج تحسین پیش کیا اور انکی خدمات کو سراتے ہوئے کہا کہ تمام ڈاکٹر بہت محنت سے کام  کررہے  ہیں اس بیماری کے خلاف وہ اور انکا پورا گروپ اس مشکل وقت انکے ساتھ ہے جبکہ دوسری جانب انہوں نے  عام  عوام کو بھی ترغیب کی وہ  اپنے آپ کو گھروں میں تک محصور رکھیں یا پھر انکے ساتھ ڈانس کرنے کے لئے تیار ہوجائیں ۔۔۔

گاہنا میں میتوں میں ڈانس کرنے والا گروپ ایک بار پھر وائرل ۔۔

 پال بئیر ڈانس گروپ نے سال 2017 میں شہرت کی ۔۔ جب انکی  ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر آئی جس پر چند لوگ کوفن کو آٹھاکر کر ایک  مخصوص رقص کررہے تھے۔ ان کا  تعلق افریقی ملک ۔گاہنا سے  ہے۔۔ گاہنا میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں یا  کئی  قبیلے ایسے  بھی  ہیں جن میں   موت پر افسرده ہونا درست عمل نہیں بلکے انکے لئے یہ خوشی تصور کی جاتی ہے ۔۔۔

اس ہی سلسلے میں پال بیئر گروپ میتوں میں ڈانس کی سہولیات فراہم کرتا ہے اور اسکے  عوض اپنی فیس لیتا ہے ۔۔ اس سب مرحلے میں انکا  ایک  مخصوص لباس زیب تن کرتے ہیں۔  اور مقامی میوزک پر کوفن کو کندھے پر اٹھائے ۔۔ اور مختلف اقسام کے ڈانس اسٹیپ کرنا انکی خاصیت میں سے ہے ۔۔اگر مقامی لوگوں کے حساب  سے دیکھا جائے تو یہ ایک مہنگی سروس ہے جس کو  ہر کوئی نہیں بلکہ اشرافیہ ہی حاصل کرسکتی ہے۔۔

بین جے مین کا کاروبار اب کافی وسعت پاچکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چند لوگوں سے  شروع ہونے والے کاروبار سے اب  اس ڈانسنگ کوفن گروپ سے تقریباً 600 کے قریب لوگ منسلک ہیں،  جو اس بات  دلیل بھی  ہے کی بین جے ایڈو کا گروپ کافی ترقی  حاصل کرچکا ہے اور لوگ ان سے اپنی میتوں میں سہولیات حاصل کرتے ہیں


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *