ڈیجا وو کیا ہے؟ ایسا کیوں لگتا ہے پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے


-2

ہمارے ساتھ اکثر و بیشتر کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہوتا ہے جس کے بارے میں ہم سوچتے ہیں کہ ایسا ہمارے ساتھ پہلے بھی ہو چکا ہے۔

Deja Vu Reason
Image Source : Google

کسی نئی جگہ جا کر لگتا ہے کہ ہم پہلے بھی یہاں آ چکے ہیں، کوئی واقعہ پہلی بار دیکھ کر بھی لگتا ہے ایسا ہمارے ساتھ پہلے بھی ہو چکا ہے حالانکہ حقیقت میں ہم پہلے کبھی اس جگہ نہیں گئے اور پہلے کبھی اس طرح کا واقعہ ہمارے ساتھ نہیں پیش آیا ہوا ہوتا۔

کچھ لمحوں کے لیے آپ کو بھی یہ احساس ہوتاہوگا  کہ آپ کے ساتھ بھی ایسا واقعہ ماضی میں پیش آچکا ہے جب کہ اس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا، نہ آپ کے ساتھ حقیقی زندگی میں کبھی ایسا واقعہ پیش آیا ہوتا ہے۔

What is Deja vu?

ابھی آپ نے سوچا ہے کہ ’ڈیجا وو‘ کیا ہے؟ اور ہمیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ جو ہو رہا ہے وہ آج سے پہلے سے بھی ہو چکا ہے؟

’ڈیجا وُو‘ کی کیفیت سے ہم سب واقف ہیں، یعنی ایسی کیفیت جب ہمیں لگتا ہے کہ ہم یہ کام پہلے بھی کر چکے ہیں، یہ چیز پہلے بھی دیکھ چکے ہیں، لیکن آپ کا شعور بتاتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا ہے۔

انگریزی کی اصطلاح ’ڈیجا وُو‘ دراصل ایک فرانسیسی اصطلاح کا ترجمہ ہے جس کا مفہوم ہے ’پہلے دیکھا ہوا۔‘

تحقیق کے مطابق ہم میں سے نوے فیصد لوگوں کو زندگی میں ایک مرتبہ ’ڈیجا وُو‘ ضرور ہوتا ہے، تاہم ابھی تک ہمیں پوری طرح معلوم نہیں کہ یہ کیفیت ہوتی کیوں ہے۔؟

Deja Vu Reasons ڈیجا وو کیوں ہوتا ہے؟

پروفیسر ایلن براؤن کا کہنا ہے کہ لوگوں کو پہلی مرتبہ ’ڈیجا وُو‘ کی کیفیت تقریباً چھ، سات برس کی عمر میں ہوتا ہے، تاہم 15 سے 25 سال کی عمر کے دوران یہ آپ کو زیادہ مرتبہ ہوتا ہے، اور پھر جوں جوں آپ بوڑھے ہوتے ہیں یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔ انسانی یاد داشت کی دیگر بیماریوں کے برعکس ’ڈیجا وُو‘ زیادہ تر نوجوانوں کو ہوتا ہے۔

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ زیادہ تر لوگ اس کیفیت کا شکار اس وقت ہوتے ہیں جب ان کے دماغ کی کوئی رگ بلاوجہ ہی ’پھڑک‘ اٹھتی ہے اور بالکل غیر متعلق خیالات کو آپس میں جوڑ دیتی ہے۔

کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ کیفیت آپ کے دماغ کے کسی پٹھے کے بلاوجہ سکڑنے سے پیدا ہوتی ہے، جیسے آپ کی آنکھ بلاوجہ پھڑکتی ہے۔ لگتا ہے کہ اس کا تعلق آپ کے دماغ کے اس حصے سے جڑا ہوتا ہے جو آپ کی یاداشتوں سے متعلق ہے، جس کے ذریعے آپ ایک جیسی دو چیزوں یا ایک جیسے دو واقعات میں تعلق جوڑتے ہیں۔

ایک تیسرے نظریے کے مطابق ’ڈیجا وُو‘ ایک قدرتی عمل ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ کوئی ایسی چیز یا واقعہ دیکھتے ہیں جس سے ملتی جلتی چیز یا واقعے کا تجربہ آپ پہلے کر چکے ہوتے ہیں اور اس کی یاد آپ کے دماغ کے کسی خانے میں محفوظ ہوتی ہے۔ مثلاً کسی خاص کمرے کی ساخت یا کسی کمرے  میں مختلف چیزوں کی ترتیب دیکھ کر آپ کو لگتا ہے کہ آپ یہ کمرہ کبھی پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔

ایسے کئی  لوگ ہیں جو ’ڈیجا وُو‘ کو مانتے ہی نہیں، جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک قسم کا روحانی تجربہ ہوتا ہے۔ ٹیڈ ایڈ کی یوٹیوب ویڈیو کے مطابق بدقسمتی سے ’ڈیجا وو‘ کو کسی ایک طریقے سے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ’ڈیجا وو‘ بہت ہی تھوڑی دیر کے لیے ہوتا ہے اور اچانک ہوتا ہے جس کے باعث سائنسدانوں کے لیے اس کا مشاہدہ کرنا یا اس پر تحقیق کرنا ناممکن ہے۔

یہ خالصتاً ایک نفسیاتی معاملہ ہے جس کے بارے میں کوئی بھی یہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس کیفیت کا سامنا کیسے اور کہاں ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ’ڈیجا وو‘ کے بارے میں ٹھوس ثبوت نہیں مل پاتے اس لیے برسوں سے اس کے بارے میں سائنسی طور پر قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں

ڈیجا وو‘ کے بارے میں ایک تھیوری یہ ہے کہ ہمارے دماغ میں جو معلومات جا رہی ہوتی ہے وہ براہ راست اور ایک ساتھ تین مراحل کے ساتھ جاتی ہے۔ اس معلومات کے ہمارے دماغ میں جانے کے دوران اگر کوئی ایک مرحلہ تھوڑا تاخیر کا شکار ہوجائے تو اس صورت میں ہمیں معلومات تھوڑی تاخیر کے ساتھ ملتی ہے۔

واضح رہے یہاں معاملہ دماغ کا ہے اور کچھ ہی ملی سیکنڈوں کا ہے۔ اس صورت میں جب تاخیر سے ملنے والی معلومات ہمارے دماغ تک پہنچتی ہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے پہلے بھی یہ چیز اپنے ماضی میں دیکھ رکھی ہے۔

دوسری تھیوری

اسی سلسلے میں دوسری تھیوری حال ہی میں ہونے والی غلطی کے بجائے ماضی میں ہونے والی الجھن (کنفویژن) کے گرد گھومتی ہے اور اس تھیوری کو ہولوگرام تھیوری کہتے ہیں۔

اس تھیوری کے مطابق ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ یاداشت ہولوگرام کی صورت میں ہمارے دماغ میں محفوظ ہوتی ہے اور ہولوگرام میں آپ کو پوری تصویر (یاداشت) دیکھنے کے لیے صرف ایک ٹکڑا دیکھنا ہی کافی ہوتا ہے۔

تیسری تھیوری

اس کے بعد ڈیجا وو کی تیسری تھیوری ’ڈیوائیڈڈ اٹینشن‘ کہلاتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ ایک وقت میں کئی چیزیں دیکھ رہے ہوتے ہیں تاہم ان تمام چیزوں پر ایک ہی جتنی توجہ نہیں دے پاتے

مثال کے طور پر آپ اسی ریستوران میں بیٹھے ہیں۔ آپ کے سامنے چمچے، کانٹے، پلیٹیں اور ٹیبل کلاتھ موجود ہے۔ آپ کے اوپر پنکھا چل رہا ہے اور آپ کے ارد گرد دیگر لوگ اور ریستوران کا عملہ موجود ہے لیکن اس سارے وقت کے دوران آپ سب چیزوں کو دیکھ رہے ہوں گے لیکن آپ کی توجہ کسی ایک چیز پر مرکوز ہوگی۔

Deja Vu Reasons
Image Source: Hasi Tv

 آپ اپنے سامنے پڑے ہوئے کانٹے پر توجہ رکھے ہوئے ہیں اور آپ کے سامنے باقی جو چیزیں پڑی ہیں وہ آپ دیکھ تو رہے ہیں لیکن ان پر آپ کی توجہ نہیں ہے۔ اسی دوران جیسے ہی آپ کانٹے سے توجہ ہٹا کر بقایا چیزوں کو دیکھیں گے آپ کو ایک دم سے کچھ لمحات کے لیے محسوس ہوگا کہ آپ پہلے یہاں آئے ہوئے ہیں یا پھر اردگرد ہونے والی کوئی حرکت پہلے یہاں ہو چکی ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ آپ تمام چیزوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اس کے برعکس آپ کی توجہ ایک چیز پر ہوتی ہے آپ کا دماغ انجانے میں باقی چیزوں کو بھی ریکارڈ کر رہا ہوتا ہے۔ واضح رہے اس نفسیاتی عمل کی تینوں تھیوریز بھی حتمی طور پر یہ ثابت نہیں کر سکتیں کہ ڈیجا وو انہی وجوہات کےوجہ سے ہوتا ہے۔

کس عمر کے لوگوں کو ڈیجا وو زیادہ ہوتا ہے؟

ڈیجا وو کا تجربہ بڑوں کی نسبت بچوں کو زیادہ ہوتا ہے جو نہایت ہی مختصر وقت کے لئے پیش آتا ہےایک سکینڈ سے بھی کم وقت کے لئے یہ کیفیت طاری ہوتی ہےایسے میں انسان کویاد نہیں آتا کہ ماضی میں یہ واقعہ کہاں پیش آیا تھا؟اس تجربے کے دوران اور بعد میں انسان کو ایک عجیب وغریب کیفیت محسوس ہوتی رہتی ہےکہ اس کے ساتھ کوئی بہت مختلف اور منفرد واقعہ پیش آیا ہے

اسکے علاوہ ڈیجاوو کے زیادہ تر تجربات بعد  میں بھول جاتے ہیں اور دوبارہ دماغ پر زور دینے سے بھی یاد نہیں ہوتا کہ پیش  آنے  والا واقعہ کون سا تھا اور کس نوعیت کا تھا۔ عام حالات میں ہر انسان ڈیجا وو    بارے میں ذاتی تجربے کی بنا پر جا نتا ہے اور اس پر بات چیت کرسکتا ہے لیکن اس کے علم میں کوئی خاص حصہّ نہیں ڈال سکتا۔

ڈیجا وو کے بارے میں بہت سے توجیحات ہیں جو مختلف مذاہب ،فلاسفر اور ماہرین نفسیات  نے پیش کی ہیں لیکن  ان میں  سے کوئی  ایک بھی اصولی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔

ڈیجا وو یا دوسرا جنم

سب سے قدیم مفروضہ ہندو مذہب کا ہے ۔ ہندو مت کے مطابق  یہ ہماری پچھلی زندگی کی کوئی  یاداشت ہوتی ہے ۔ہندو مت میں کئی جنم مانے جاتے ہیں اور  ہندو فلاسفی کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ہندومت میں کئی جنم اور آواگون کا نظریہ دراصل صرف اور صرف ڈیجاوو کی بنیاد  پر کھڑا ہے۔یہی ایک منطق ہے جو ہمیشہ سے جنم کےچکر کےکامیاب رکھنے میں مدگار ثابت ہوتی ہے۔

ہندو مذہب کے مطابق  ایک انسان  کئی زندگیاں گزر چکا ہوتا ہے وہ کبھی جانور بن کر دنیا میں آتا ہے اور کبھی انسان۔

ہندو مت کے مطابق  جب انسان دوبارہ جنم لیتا ہے تو وہ اپنی پرانی یاداشت  لیکر جنم نہیں لیتا ،لیکن زندگی میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن سے لگتا ہے کہ ہم ماضی میں اس دنیا میں رہ چکے ہیں ،لیکن یہ نظریہ بالکل صحیح نہیں ہے۔

ڈیجا وو کے بارے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ جب ہم سورہے ہوتے ہیں تو ہماری روح   ہمارے جسم سے نکل کر کچھ کام کرتی ہے اور وہ کام ہمارے  سوئے ہوئے دماغ میں محفوظ  رہ جاتا ہے اور بھر حقیقت  میں وہ کام کرنے لگتے ہیں تو ہمیںلگتا ہے کہ ہم یہ کام پہلے کرچکے ہیں۔

اس کے متعلق تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتاہے اس کے اندر کوئی نہ کوئی  بات گردش کرتی رہتی ہے  ہم خیالوں میں بہت سی تصویریں  بناتے رہتے  ہیں ان میں سے کچھ تصویریں حقیقت سے ملتی جلتی  ہوتی ہیں اور ہمیں لگتاہے کہ ہم پہلے یہ دیکھ چکے ہیں۔

چوتھا نظریہ 

چوتھا نظریہ  ہے کہ  جب ہم پیدا  ہوتے ہیں تو ہم ماں باپ پر جاتے ہیں ہماری کچھ عادات  جسم کے کچھ حصے یا ہمارا چہرہ کسی نہ کسی  حد تک ماں باپ  سے مشابہہ ہوتا ہے اسی دوران  ہمارے اندر  اپنے ماں باپ کی یادیں آجاتی ہیںاور جب ہمارے ساتھ حقیقت  میں کچھ ہوتا جو ہمارے ماں باپ  کے ساتھ ہوچکا  ہو وہ ہمیں اس طرح لگتا ہے جیسے ہم یہ کر چکے ہوں۔

عام زندگی میں عموما ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم کسی  پرانے جان پہچان والے بندے سے ملتے ہیں  تو تھوڑی دیرکے لئے چونکتے ہیں اور یسے پہچانے کی کو شش کرتےہیں پھر ہمیں اچانک سے یاد آجاتا ہے کہ وہ کان ہے ۔اچانک یاد آجاننے کا عمل  دما غ کی  ایک عادت ہے۔

نفسیات  کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کوئی پرانی یاداشت نہیں ہو تی اور ہی پچھلے جنم کی کوئی بازگشت ہے بلکہ یہ واقعہ اپنے سے پہلے پیش آنے سے صرف ایک لمحہ  پہلے اہنے نزدیکی امکان کی ایک جھلک  دکھا تا ہے تو اگلے  لمحے اس واقعہ میں داخل ہوتے ہی ہمیں یوں لگتا ہے کہ یہ تو ہماری  یاداشت میں پہلے سے ہی ماجود تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ ڈیجا وو قدرت کا وہ سر بستہ  راز ہے جس کی حقیقت تک پہنچنے  میں ابھی ہمیں کچھ ٹائم اور لگے  گا  اور ایک دن  اس راز سے پردہ ہٹا کر کائنات ایک نئے رنگ میں ہمارے سامنے ہوگی۔


Like it? Share with your friends!

-2
Annie Shirazi

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *