لکڑی سے خوبصورت ڈیکوریشن شو پیس بنانے والی خوجہ سرا چاندنی گل


0

ہنر مند انسان کبھی کسی کا محتاج نہیں ہوتا اس کی ایک مثال چاندنی گل ہیں جو ہیں تو خواجہ سرا لیکن انہوں نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے بجائے ہنر سیکھنے کو ترجیح دی اور اس ہنر سے اپنے لئے روزگار کا بندوبست کیا۔

خواجہ سرا چاندنی گل گھر بیٹھے لکڑی سے ٹیبل، ٹرے اور گھر کی سجاوٹ کے لئے مختلف اقسام کے شو پیسیز بنا کر بیچتی ہیں اور اس آمدنی سے اپنا گھر چلا رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے اردو نیوز کو دئیے جانے والے انٹرویو میں چاندنی گل نے بتایا کہ لکڑی سے ڈیکوریشن پیسیز بنانے کا یہ کام انہوں نے باقاعدہ سیکھا ہے اور وہ پچھلے ایک سال سے یہ کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کسی بھی ڈیکوریشن پیس کو بنانے کے لئے وہ لکڑی خود لاتی ہیں اور اس کی رگڑائی کا کام گھر میں ہی کرتی ہیں، لکڑی سے ڈیکوریشین پیس تیار کرکے انہیں پرنٹنگ کے لئے بھیج دیتی ہیں اور پھر پرنٹنگ سے آنے کے بعد ان کی پیکینگ کا کام کرتی ہیں اور پھر انہیں فروخت کے لئے بھیج دیتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کے وہ آرڈر پر بھی یہ کام کرتی ہیں یعنی گاہک اپنی پسند کے مطابق بھی چیزیں بنوا سکتے ہیں۔

خواجہ سرا چاندنی گل “ ماہنوش” ادارے کے تحت یہ کام کر رہی ہیں، یہ ادارہ بلخصوص خواجہ سراؤں کے لئے ملازمت کے مواقع پیدا کرتا ہے کیونکہ یہ ہمارے معاشرے کے وہ افراد ہیں جنہیں عزت کی نگاہ سے دیکھنا تو درکنار ان کی شخصیت کو بھی مذاق کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔ تاہم ان افراد کو بامقصد شہری بنانے کے لئے اس ادارے کا قیام عمل میں آیا تاکہ معاشرتی رویوں کی وجہ سے نظر انداز ہونے والا یہ طبقہ بھیک مانگنے کے بجائے باعزت روزگار کے ذریعے خود کو سپورٹ کرسکے اور ایک عام شہری کی طرح اپنی زندگی بسر کرسکے۔

اس ادارے کے مطابق یہ تمام ڈیکوریشن پیسز آن لائن بھی فروخت کئے جاتے ہیں اور آمدنی سے جو 25 فیصد منافع ہوتا ہے اس کا 15 فیصد حصؔہ ادارے سے منسلک کام کرنے والے خواجہ سرا کو دیا جاتا ہے جب کہ 5 فیصد حصؔہ ایسے خواجہ سراؤں کو دیا جاتا ہے جو کام نہیں کررہے۔

انٹرویو کے دوران چاندنی گل نے اپنی برادری کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں کو کوئی ہنر آتا ہے تو وہ اپنے ہنر کو کام میں لائیں اور جو ہنر مند نہیں وہ کوئی ہنر ضرور سیکھیں تاکہ باعزت طریقے سے اپنا گھر چلا سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اپنے اس ہنر سے بے حد خوش ہوں کیونکہ یہ میرے لئے آمدنی کا زریعہ بھی ہے اس سے معاشرے میں مجھے عزت بھی ملی ہے اور اب لوگ مجھے حقارت سے نہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *