بہت زیادہ خوبصورت ہونا، نوکری سے برخاست کرنے کی وجہ بن گئی


-1

گزشتہ برس لاہور کے اسکول سے منسلک ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا، جس نے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں پاکستان بھر میں نجی اداروں میں کام کرنے والی انتظامیہ سے منسلک سوالات کھڑے کردئیے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ لاہور کے ایک نجی اسکول میں آسیہ زبیر نامی خاتون اساتذہ کو محض بہت زیادہ پرکشش ہونے کے باعث برخاست کردیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں اب خاتون اساتذہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے اسکول کے قانونی کاروائی کا شروع کردی ہے۔

تفصیلات کے مطابق 29 سالہ خاتون اساتذہ عائشہ زبیر لاہور کی رہائشی اور ایک شادی شدہ خاتون ہیں جوکہ لاہور کے ایک نجی اسکول میں پچھلے 6 برس سے بحیثیت استانی اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں، تاہم انہیں گزشتہ برس اگست کی 11 تاریخ کو محض اس لئے برخاست کردیا گیا کہ وہ بہت زیادہ خوبصورت اور پُرکشش ہیں لہذا وہ اسکول میں سکینڈری کے طلباء کو نہیں پڑھا سکتی ہیں۔

اس ہی سلسلے میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر عائشہ زبیر نے بےجا اور فضول منطق پر نوکری برخاست کرنے پر اسکول انتظامیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ “انہیں اپنے اسکول کے ایک منتعظم سے ایک برخاستگی کا ایک خط (لیٹر) موصول ہوا، جس میں کہا گیا کہ میرا جسم ثانوی تعلیم کے طالب علموں کو پڑھانے کے لئے کافی چوست اور شہوانی ہے۔

انہوں نے اپنے جاری کئے پیغام میں اس معاملے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا اگرچہ ہم عام طور پر مہذب شلوار قمیض دوپٹہ وغیرہ پہنتے ہیں، لہذا انہیں کچھ نہیں معلوم کہ وہ ان سے آخر کیا چاہتے ہیں۔

ٹوئیٹر پر جاری کردہ پیغام میں خاتون استانی (ٹیچر) عائشہ زبیر نے سوال اٹھاتے ہوئے لکھا کہ خواتین اساتذہ اسکول میں ڈیوٹی کے اوقات نہایت مہذب کپڑے پہنتی ہیں، اگر یہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے، تو اساتذہ اسکول انتظامیہ کے خدشات دور کرنے کے لئے اور کیا کریں؟

یہی نہیں حال ہی میں عائشہ زبیر نامی خاتون استانی کی جانب سے ٹوئیٹر پر ایک بڑا پیغام جاری کرتے ہوئے لکھا کہ انتہائی مضحکہ خیز وجوہات کی بنا پر معطل کئے جانے والے اسکول کے خلاف انہوں نے قانونی چارہ جوئی شروع کردی ہے۔

لیکن اب اس پورے ماجرے کے حوالے سے حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ سوشل میڈیا پر گردش کرتی یہ پوری کہانی جھوٹ پر مبنی ہے، محض یہی نہیں عائشہ زبیر نامی کسی بھی خاتون استانی کو کسی بھی لاہور کے اسکول سے محض کپڑوں اور جسامت کی بنیاد نکالنے کا کوئی واقعہ درج نہیں ہوا ہے۔

جبکہ اس پورے اسکینڈل میں خاتون استانی عائشہ زبیر کے نام سے جاری کردہ تصاویریں، جن کی بنیاد پر معاملے کو بڑھاوا دیا جارہا ہے، وہ کسی عائشہ زبیر نامی لاہور کی استانی کی نہیں بلکہ زویا شیخ نامی ایک بھارتی ماڈل کی ہیں، جن کا اس پورے معاملے سے کوئی لینا دینا بھی نہیں ہے۔

Image Source: Instagram

ساتھ ہی ساتھ جو تصاویریں جاری کی گئی ہیں، اس میں بھی ایک مختلف پہلو واضح ہوا ہے کہ کچھ جگہوں پر دوسری بھارتی ماڈل جن کا نام سنجانا سنگھ ہے، ان کی تصاویریں عائشہ زبیر کے نام سے شئیر کی گئی ہیں۔

Image Source: Instagram

تاہم سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر بغیر تصدیق کے ان تمام پرانی ٹوئٹس کو دوبارہ شئیر کررہے ہیں، جس پر ان کا محض یہی مقصد ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے سماجی توجہ حاصل ہوجائے، اگرچہ انہیں معلوم بھی نہیں ہے کہ یہ پروفائل اور تصاویر کسی اور کے ہیں، جبکہ ہم نے مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جو پوگ زیادہ اس پر اپنی رائے دے رہے ہیں، ان میں بیشتر کا تعلق بھارت سے ہے۔

اس سے محض یہی بات واضح ہوتی ہے کہ اس کے پیچھے بھارتی لوگ تھے، جن کا واحد مقصد پاکستان کو بدنام کرنا تھا تاکہ پاکستان میں اس حوالے کچھ شور شرابا ہو اور بھارت اس کا مزہ لے، لہٰذا بطور پاکستانی ہم پر ذمہ داری ہے کہ اپنے ملک سے منسلک کسی بھی خبر کو آگے بڑھانے سے قبل تصدیق کرلیں کہ متعلقہ خبر درست ہے یا کوئی منعظم پروپیگنڈہ ہے۔


Like it? Share with your friends!

-1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *