بھارت میں مسلمانوں کیلئے نماز کی ادائیگی بھی جرم بن گئی


0

بھارت میں اقلیتوں باالخصوص مسلمانوں کے لئے زندگی گزارنا دن بہ دن دشوار ہوتا جارہا ہے، اب انتہا پسند ہندؤں نے مسلمانوں کےلئے مذہبی فرائض کی آزادانہ ادائیگی بھی ایک جرم بنا دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارتی ریاست اتر پردیش میں گھر میں با جماعت نماز ادا کرنے پر 25 سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر مسلمانوں کی باجماعت نماز کی ادائیگی کے ایک اور واقعے کی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے، جس میں دائیں بازو کے ایک سرگرم گروپ نے اجمیر جانیوالے مسلمانوں کو کھلی جگہ پر نماز ادا کرنے پر ہراساں کرنے کیساتھ دھمکیاں دی ہیں۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونیوالی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ انتہا پسند ہندو نہتے مسلمانوں کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آرہے ہیں، ان کو کھلی جگہ پر نماز کی ادائیگی کرنے پر دھمکیاں دے رہے ہیں اور ساتھ ان کو اس ‘جرم’ کا ارتکاب کرنے پر کیمرے کے سامنے معافی منگوانے پر بھی بضد ہیں۔

واضح رہے کہ یہ واقعہ اتر پردیش کے ضلع مراد آباد کے گاؤں دلہے پور پیش آنیوالے واقعے کی کڑی معلوم ہوتا ہے جس میں مبینہ طور پر بڑی تعداد میں گھروں کے اندر نماز ادا کرنے والے لوگوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں جس کے بعد ہندو انتہاپسند تنظیموں کے چند کارکنوں نے احتجاج کرتے ہوئے پولیس سے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ پولیس نے مقامی حکام کی پیشگی اجازت کے بغیرگھر میں باجماعت نماز ادا کرنے پر 26 مسلمانوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا تھا۔ اس گروپ کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں، جس پر انٹرنیٹ صارفین نے غصّے اور مایوسی کا اظہار کیا اور اسے گاؤں والوں کا تعصبانہ روّیہ قرار دیا ہے۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مرادآباد کے سپرانٹنڈنٹ آف پولیس سندیپ کمار مینا نے بتایا کہ دولہے پور گاؤں میں دو مقامی افراد کے گھر پر سینکڑوں لوگ بغیر کسی اطلاع کے جمع ہوئے اور نماز ادا کی۔ انہوں نے کہا کہ گاؤں والوں کو ماضی میں خبردار کیا گیا تھا کہ وہ پڑوسی ہندوؤں کے اعتراضات کی وجہ سے گھر میں باجماعت نماز ادا نہ کریں ۔انہوں نے کہا کہ ایک شخض چندر پال سنگھ کی شکایت پر 16شناخت شدہ اور 10 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور اس معاملے میں ملوث افراد کی تلاش جاری ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گاؤں میں کوئی مسجد نہیں ہے، اور گھر میں نماز کی ادائیگی پر بھی گاؤں کے رہائشیوں نے اعتراض کیا ہے۔

پولیس کے اس بیان کے بعد رکن پارلیمان اسدالدین اویس نے ٹویٹ کی کہ ’انڈیا کے مسلمان اب گھروں میں بھی نماز نہیں پڑھ سکتے۔ کیا اب نماز پڑھنے کے لیے بھی حکومت پولیس سے اجازت لینا ہوگی؟ نریندر مودی کو اس کا جواب دینا چاہیے، کب تک ملک کے مسلمانوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک کیا جائے گا؟‘

انہوں نے کہا کہ معاشرے میں مذہبی منافرت اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اب گھروں میں نماز پڑھنے سے بھی لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ اگر کسی پڑوسی نے اپنے 26 دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ہَوَن رکھا ہوتا تو سب کو بالکل قبول ہوتا، یہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کا مسئلہ نہیں بلکہ نماز پڑھنے کا مسئلہ ہے’۔

قبل ازیں، لکھنؤ کے ایک مال میں بھی نماز پڑھنے کے مبینہ واقعہ پر مال انتظامیہ نے نماز ادا کرنے والے نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی۔

Story Courtesy: EXPRESS TRIBUNE


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *