ماہرہ خان نے مقتول جبران آغا کے حق میں آواز بلند کردی


0

صوبہ بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں گزشتہ ہفتے پیش آیا قتل کا ایک ہولناک واقعہ جس میں ایک بااثر شخص کے بیٹے نے 17 سالہ نوجوان کو چھریوں کے وار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

اطلاعات کے مطابق یہ واقعہ عید کے تیسرے روز کوئٹہ کے ائیرپورٹ روڈ پر پیش آیا جس میں 17 سالہ جبران آغا نامی نوجوان کو ہوبیر خان نامی ایک بااثر شخص نے کسی نجی معاملہ پر چھریوں کے وار کرکے قتل کردیا اور بعدازاں اپنی گاڑی چھوڑ کر فرار ہوگیا۔

بعدازاں اس واقعے پر جسٹس فور جبران کے نام سے ایک ٹرینڈ چلایا گیا اور لوگوں جبران کے لئے انصاف کی آواز بلند کی۔ اب اس واقعے میں ایک بڑی آواز بھی جڑگئی ہیں اور وہ نام ہے فلمی اداکارہ ماہرہ خان جنہوں نے اس پورے معاملے پر جبران آغا کے لئے انصاف کی آواز بلند کرتے ہوئے کہا کہ ملوث لوگوں کو مثال بنا دینا چاہئے۔

ماہرہ خان نے اپنی ٹوئٹ میں وزیراعظم عمران خان اور وزیر انسانی حقوق شریں مزاری کو مخاطب کرتے ہوئےمزید کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، ان کو بلکل نہ چھوڑا جائے۔ اس حوالے سے انہوں کچھ اشعار بھی لکھے۔ جس میں انہوں نے قتل کے احتساب کی بات کی۔

البتہ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین بھی جبران آغا اور ان کے خاندان کے حق میں انصاف کی آواز بلند کرچکے ہیں۔

یاد رہے یہ پورا معاملہ گزشتہ ہفتے عمادالدین نامی شخص، جو مقتول جبران آغا کے استاد اور دوست نے معروف اینکرر اور ہوسٹ وقار ذکاء کو ایک لائیو سیشن انٹرویو میں واقعہ بیان کیا تھا، جس میں انہوں کہا کہ ہوبیر کاکڑ کا خاندان بااثر ہے، ہوبیر کاکڑ نے پہلے جبران آغا کو زخمی کیا اور پھر وہاں پر اپنی گاڑی چھوڑ کر بھاگ گیا اگرچہ وہ گاڑی اس وقت بھی پولیس کی تحویل میں ہے۔ جبکہ جبران آغا نے زخمی حالت میں اپنے دوست عثمان، شاہجہان اور سیلمان کو فون کیا اور مدد کے لئے بلایا۔ جس پر وہ تینوں وہاں پہنچے اور جبران کو اسپتال لیکر گئے اور جہاں ہوبیر کاکڑ پہلے سے ہی موجود تھا پھر ہوبیر کاکڑ نے دوبارہ چھریوں سے حملہ کیا جس سے عثمان زخمی ہوا اور جبران آغا دم توڑ گیا تھا اور عثمان ابھی بھی اسپتال میں زیر علاج ہے جبکہ ہوبیر کاکڑ اور اس کی فیملی نامعلوم مقام پر اب منتقل ہوچکی ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *