شہاب ثاقب کی غیرقانونی اسمگلنگ کے خلاف اقدامات ضروری


0

رواں سال فروری میں صوبہ بلوچستان کے علاقے ميں چند چھوٹے شہاب ثاقب گرے، لیکن واقعے کے وقوع پزیر ہونے کے چند دنوں بعد ہی ان ٹکڑوں کو با اثر مقامی افراد نے مبینہ طور پر افغانستان کے راستے بيرون ملک اسمگل کر ديا۔ اب يہ شہاب ثاقب ايريزونا اسٹيٹ يونيورسٹی ميں ہيں اور ان پر تحقيق جاری ہے۔جبکہ اس تمام پیش ِرفت سے میڈیا بالکل لاعلم رہا۔

واقعے کی تفصیلات کے مطابق کوئٹہ سے تقريباً 315 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ژوب ڈویژن کی یونین کونسل حسن زئی ميں چند مزدور جب شام کو اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے تو ان سے کچھ فاصلے پر شہابِ ثاقب آ گرے۔ ان میں سے سب سے بڑے پتھر کا وزن تقریباً 18.9 کلوگرام تھا۔ اس کے گرد و نواح میں گرنے والے چھوٹے پتھروں کی تعداد بھی کافی زیادہ تھی۔ مزدوروں نے انہيں جمع کر لیا۔ تاہم کچھ دن بعد کوئٹہ سے کچھ افراد نے مبينہ طور پر اس علاقے کا دورہ کیا اور بڑے پتھر سمیت تمام پتھر یہ کہہ کر لے گئے کہ انہیں اسلام آباد کے ایک تحقیقی ادارے میں تجزیے کے ليے بھیجا جائے گا۔ یہ پتھر تحقیقی ادارے بھیجنے کے بجائے انہیں افغانی سرحد کے راستے تقریباً چار لاکھ روپے میں اسمگل کر دیا گیا۔ چونکہ اس علاقے کے لوگ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں لہذا وہ اس پتھر کی اہمیت سے نا واقف تھے۔

قیمتی پتھروں کی اسمگلنگ کا یہ واقعہ اس وقت انٹرنیشنل میڈیا میں اس وقت سامنا آیا جب امریکا  کی ايريزونا اسٹیٹ یونیورسٹی نے اس پتھر پر تحقیق کرکے اس سے متعلق اہم معلومات جاری کیں، اور ان ٹکڑوں کو “ژوب میٹیورائٹ “کا نام دیا گیا ہے۔

اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد اس غیر قانونی اسمگلنگ کی روک تھام اور شہاب ثاقب کی پاکستان واپسی کیلئے پاکستانی سائنسدان شہیر نیازی سوشل میڈیا پرمہم چلا ہیں۔ انہیں2019 میں” فوربس میگزین “نے دنیا بھر کے انڈر 30 متاثر کن نوجوانوں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ شہیر کے مطابق انہوں نے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر “ژوب میٹیورائٹ “کی پاکستان سے غیر قانونی اسمگلنگ کو ہائی لائٹ کیا ہے۔
انہوں نے ٹوئٹر پر وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی توجہ بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے اس واقعے کی طرف مبذول کرائی ہے جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ وہ بلوچستان کی حکومت سے اس پر معلومات لیں گے۔

Source: Google

شہیر نیازی کے مطابق ژوب میٹیورائٹ کے ساتھ جو چھوٹے پتھر گرے تھے ان میں سے کچھ اب تک فروخت نہیں ہوئے ہیں ۔وہ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں وطن واپس لايا جاسکے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ معلومات کے مطابق ایک شپمنٹ بھی ان علاقوں سے جانے والی تھی جسے افغانستان کے بارڈر پر حکومتِ بلوچستان نے سیز کیا۔ ہم پتا لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس کو کہاں روکا گیا ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں سے ابھی تک کل 17 شہاب ثاقب ملے ہیں، جو  انٹرنیشنل یونیورسٹیوں اور سائنس کمیونٹی کے ليے فلکیاتی حیاتیات اور جیولوجی میں تحقیق  کے ليے بہت اہمیت کے حامل ہیں اور کم از کم ان کے سیمپل پاکستان میں کسی میوزیم میں تو موجود ہونے چاہئیں۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ صوبہ بلوچستان کے بہت سے علاقوں کا شمار فلکیاتی مشاہدات کے ليے بہترین مقامات میں ہوتا ہے۔ یہ صوبہ قدرتی طور پر وسائل سے مالا مال ہے، یہاں بہت سے نایاب اور قیمتی پتھر پائے جاتے ہیں۔ ليکن کچھ بااثر افرادان وسائل کو صوبے کی ترقی میں مثبت طریقے سے برؤے کار لانے کے بجائے لالچ میں اندھا دھند ہوکر محض چند روپوں کے عوض ان قیمتی وسائل کو مقامی افراد کی ملی بھگت سے بلوچستان سے غیر قانونی طور پر دوسرے ممالک اسمگل کر رہے ہیں جس کے ليے عموماً افغانستان کا روٹ استعمال کیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے ژوب کے مقامی افراد کے مطابق گردو نواح کے علاقوں میں قیمتی معدنیات کی اسمگلنگ اب عام ہوگئی ہے کیونکہ یہ علاقے افغانستان کی سرحد سے متصل ہیں اور یہاں قیمتی پتھر اور معدنیات وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں جنہیں مقامی با اثر افراد اونے پونے داموں اسمگل کر دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت قیمتی معدنیات کی اس غیر قانونی اسمگلنگ کے سدباب کے لئے جلد از جلد کوئی لائحہ عمل مرتب کرے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *