لاہور کے میو اسپتال میں ٹارچر سیل کی موجودگی کا انکشاف


0

حال ہی میں لاہور کے مشہور میو ہسپتال میں ایک پراسرار ٹارچر سیل کے موجود ہونے کی نشاندہی ہوئی، جسے صفائی کی ذمہ داری پر مامور سپروائزر زوہیب ملک چلایا رہا تھا، جو مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے رکنے والے افراد کو وہاں اذیت دے رہا تھا۔

پولیس کے مطابق ، زوہیب ملک ، جو میو اسپتال میں ایک نجی کمپنی سے کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی شدہ سیکیورٹی اور مینٹیننس سپروائزر تھا، وہ ہی اس ٹارچر روم کو چلانے کے پیچھے کا “ماسٹر مائنڈ” تھا۔ مبینہ طور پر ملزم پچھلے دس سال سے میو ہسپتال لاہور سے وابستہ ہے۔

Image Source: Facebook

پولیس کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق نامزد ملزم زوہیب ملک کی جانب سے اسپتال میں آئے لوگوں کو چوری ، زیادتی ، یا دوسری سے بدتمیزی کرنے کے شبہ میں ہسپتال میں واقع ایک مقام پر “سزا” دی جاتی تھی،مذکورہ اسپتال میں روزانہ ہزاروں افراد علاج کی غرض سے آتے ہیں۔

لاہور شہر کے پولیس سپرنٹنڈنٹ رضوان طارق نے وائس ورلڈ نیوز کو بتایا کہ “آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے ہی کمرہ عدالت میں بطور جج کام کرتا تھا۔” “وہ اس شخص کو لے جاتا اور پھر وہ ان سے پوچھ گچھ کرتا۔ اگر اس کو مطلوبہ جوابات نہ ملتے تو وہ ان افراد پر تشدد کا سہارا لیتا تھا۔

Image Source: Screengrab

اس حوالے سے مذکورہ ٹارچر سیل کی ایک ویڈیو حال ہی میں سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی تھی۔ جس میں دیکھا گیا تھا کہ ملزم متاثرہ شخص کو جرم قبول کرنے کے لئے مجبور کر رہا ہے، ملزم کو ویڈیو میں متاثرہ شخص پر لاتیں، مکے اور بے ہیمانہ تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

Image Source: vice World News

لاہور کے سب سے بڑے اور پرانے سرکاری ہسپتال کی لیک ہونے والی ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تشدد کی ہولناک ویڈیو کم از کم تین سال پرانی ہے۔ تاہم ، مبینہ تشدد کی فلم بندی کا مقصد نامعلوم نہ ہو سکا ہے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ انہوں نے تفریحی مقاصد کے لیے یا ریکارڈ رکھنے کے لیے اسے فلمایا ہے۔

پولیس کو شبہ ہے کہ ہسپتال کے دیگر عملے نے بھی ملزم زوہیب ملک کی لوگوں کو غیرقانونی طریقے سے حراست میں لینے اور ان کی ویڈیو بنانے میں حصہ لیا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملزمان متاثرین کو ایک کمرے میں تشدد کرتے تھے۔ اور وہ کمرہ عام طور پر کانفرنسوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

Image Source: Screengrab

اس موقع پر پولیس سپرنٹنڈنٹ رضوان طارق نے مزید بتایا کہ اسپتال کی سیکیورٹی کے تمام معاملات ملزم زوہیب ملک کے ہاتھ میں تھے، وہ وہاں کا سپروائزر تھا، لہٰذا دیگر منسلک عملا جو اس کی زیرنگرانی کام کر رہا تھا وہ بھی ان معاملات میں ناصرف واقف تھا بلکہ مرضی سے یا دباؤ کے باعث اس میں حصہ دار بھی تھا۔

مزید پڑھیں: پولی فیملی اسپتال کی ڈاکٹر کو ٹیکنیشن کیجانب سے ہراسگی کا سامنا

رضوان طارق کا مزید کہنا تھا کہ اگرچے متاثرہ لوگوں میں سے ابھی تک کوئی بھی سامنے نہیں آیا ہے، شاید اس کی وجہ یہی ہے کہ متاثرہ لوگوں میں شامل بیشتر افراد غریب اور بےگھر لوگ شامل تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پولیس میں ان واقعات کی کوئی شکایت جمع نہیں کرائی۔

دوسری جانب مقامی میڈیا کو ایک بیان میں اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر افتخار احمد نے بتایا کہ ہسپتال نے سپروائزر زوہیب ملک کو معطل کر دیا ہے۔ جبکہ اسپتال انتظامیہ کی جانب واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی قائم کی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی پولیس ملزم زوہیب ملک کو گرفتار کرچکی ہے۔

واضح رہے کچھ عرصہ قبل بھی لاہور کا میو اسپتال اس وقت شدید تنقید کی زد میں آیا تھا، جب یہ خبر سامنے آئی تھی کہ اسپتال سے برطرف ہونے والے ایک سیکورٹی گارڈ نے جعلی ڈاکٹر کا روپ دھار کر 80 سالہ ضعیف مریضہ کا غلط آپریشن کر ڈالا تھا، جس سے خاتون کی طبعیت مزید بگڑ گئی تھی۔

Story Courtesy: Vice World News


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *