خواجہ سراؤں کیلئے اسلام آباد میں پہلا دینی مدرسہ قائم


0

خدا اپنے جس بندے کو چن لے اُسے ہدایت کی راہ پر گامزن کردیتا ہے۔ وہ رب الغفور یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے بندے نے ماضی میں کیا کیا وہ تو اس کا حال اور مستقبل سنوارنے کے لئے اس کی زندگی کا رخ اپنی طرف کر لیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ خواجہ سرا رانی خان کے ساتھ بھی ہوا جن کی زندگی کے ایک واقعے نے ان کی پوری زندگی بدل ڈالی۔ لگ بھگ ایک سال پہلے تک رانی خان دیگر خواجہ سراؤں کی طرح مختلف تقاریب میں ڈانس کر کے گزر بسر کرتی تھیں اور ان کی مذہب کی جانب کوئی خاص رغبت نہیں تھی۔

مگر پھر ایسا کیا ہوا کہ جس نے ان کا طرز زندگی اور شخصیت بدل کر رکھ دی؟ رانی خان بتاتی ہیں کہ ان کی ایک خواجہ سرا سہیلی جو ان ہی کی طرح ڈانسر تھیں۔ ایک دن تقریب سے واپسی پر ان (سہیلی) کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا جس میں وہ ہلاک ہوگئیں۔ اس کی ہلاکت کے چند روز بعد رانی خان نے ایک خواب دیکھا جس میں ان کی سہیلی کا حلیہ کچھ بگڑا ہوا تھا اور وہ رانی سے کہہ رہی تھی کہ ڈانس وغیرہ چھوڑ دو۔

رانی خان کے بقول اس خواب نے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ انہیں بچپن سے دین سے کوئی خاص رغبت نہیں تھی لیکن اس خواب کے بعد ان کا دین کی جانب رجحان بڑھنے لگا۔ انہوں نے سوچا کہ وہ قرآن کی تعلیم حاصل کریں اور اسی سلسلے میں انھوں نے ایک دینی مدرسے میں جانا شروع کیا۔ وہ کچھ عرصہ تو اس مدرسے میں جاتی رہی لیکن مدرسے میں طالبعلموں کی جانب سے روا رکھے جانے والے رویے کی وجہ سے انہوں نے مدرسے کے بجائے اپنی والدہ سے ناظرہ قرآن پڑھنا شروع کردیا۔ قرآن کے ساتھ رانی خان نے نماز کی ادائیگی کرنے کا بھی عزم کیا اور وہ باقاعدہ مردانہ کپڑے پہن کر محلے کی مسجد میں بھی گئیں لیکن افسوس جس مذہب میں گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، امیر غریب سب برابر ہیں اس مذہب کے ماننے والوں نے ان کے ساتھ ایک صف میں کھڑا ہونا پسند نہیں کیا اور مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے صف بندی میں لوگ ان سے دس قدم تک کا فاصلہ رکھ لیتے۔

Image Source: Trendsmap.com

مدرسے کے بعد مسجد میں لوگوں کے اس رویے نے رانی خان کی شخصیت میں عدم تحفظ کے احساس کو مذید بڑھا دیا۔ جس کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پیسے جمع کر کے ایک دینی مدرسہ قائم کریں گی جہاں پر خواجہ سراؤں کو دین کی تعلیم دی جائے گی۔

مقصد اگر نیک ہو اور نیت صاف تو پھر منزل آسان ہوجاتی ہے یہی وجہ رانی کے لئے کامیابی کا باعث بنی اور وہ اپنے اس مقصد کو پورا کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ آج وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ایسا مدرسہ قائم ہے جسے نہ تو کوئی عالمِ دین اور نہ ہی کوئی معلمہ چلا رہی ہیں بلکہ اس دینی مدرسے کا انتظامی امور رانی خان کے ہاتھ میں ہے۔

اس حوالے سے رانی خان بتاتی ہیں کہ مدرسہ قائم کرنے کے لیے انھیں ایک گھر کی ضرورت تھی جس کی تلاش وہ پہلے ہی شروع کر چکی تھیں اور کافی تگ ودو کے بعد انہیں اسلام آباد کے نواحی علاقے میں گھر کرائے پر مل گیا۔ اس کے بعد ان کے لئے دوسرا اہم کام خواجہ سراؤں کو دینی تعلیم کی جانب راغب کرنا اور مدرسے لانا تھا جو ان کے لئے ایک مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔ وہ اسلام آباد کی سڑکوں اور چوراہوں پر گئیں جہاں پر خواجہ سرا بھیک مانگتے ہیں انھیں مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے کی دعوت دی، شروع میں کوئی بھی مدرسے میں آنے کے لیے تیار نہیں تھا پھر انھوں نے مدرسے میں آنے والوں کو یہ پیشکش دی کہ جو خواجہ سرا مدرسے آئیں گے انھیں ماہانہ بنیادوں پر راشن دیا جائے گا۔

اس پیشکش کے بعد خواجہ سرا مدرسے میں آنا شروع ہوئے مگر دو ماہ بعد ہی اس میں سے آدھے بھاگ گئے اور دوبارہ بھیک مانگنے لگے۔

اس بارے میں رانی خان کا کہنا ہے کہ اب جتنے بھی خواجہ سرا مدرسے میں آتے ہیں اُن کو ماہانہ راشن دیا جاتا ہے اور اس کی اخراجات وہ خود برداشت کرتی ہیں۔ جبکہ خواجہ سراؤں کے شوق کو مدِنظر رکھتے ہوئے انھیں ماہانہ بنیادوں پر میک اپ کا سامان بھی فراہم کیا جاتا ہے۔

اس دینی مدرسے میں خواجہ سراؤں کے علاوہ عام لوگوں کے آنے پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں لیکن رانی خان بتاتی ہیں کہ کوئی ان کے مدرسے میں نہیں آتا بلکہ لوگ اس مدرسے کو عجیب وغریب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ لیکن لوگوں کے رویوں کو پس پشت ڈال کر رانی خان اپنے مشن پر گامزن ہیں اور وہ اپنے مدرسے میں زیر تعلیم خواجہ سراؤں کو دینی تعلیم دینے کے بعد دنیاوی تعلیم بھی دلوانے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں حکومت سے درخواست کی کہ خواجہ سراؤں کو بھی احساس پروگرام میں شامل کیا جائے جس طرح دوسرے غریب اور کم مراعات یافتہ طبقے کو اس پروگرام میں شامل کیا گیا ہے کیونکہ خواجہ سرا بھی پاکستانی شہری ہیں۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *