پوائنٹ آف دین : وسوسوں پر قابو پانا


0

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

سوال: کسی چیز کی زندگی میں کمی رہے جانا۔ انسان کے دل میں وسوسے پیدا کرتی ہیں اس کو کیسے ختم کیا جائے؟

جواب

وَسْوَسَہ عربی زبان کا لفظ ہے جسکے معنیٰ ہوا کی انتہائی خفیف سرسراہٹ ہے۔
اصطلاحاً وسوسہ حدیث النفس (دل میں آنے والی بات اور خیالات) کو کہا جاتا ہے۔

خیالات محض اندرونی معاملہ نہیں، بلکہ یہ خیالات کائنات کی جانب سے نقوش کی صورت نازل ہوتے ہیں اور قلب و ذہن میں پروسیس ہوتے ہیں. آخر انسان کائنات کا جُز ہے. ہر خیال کی شدت الگ الگ ہے. طاقت ور ترین خیال اپنے ہونے کا احساس ہے… “مَیں” کا شعور ہے…. پھر اردگرد دنیا میں جو کچھ ہے، اُس کا احساس ہے. انسان کی جبلت میں شامل ہے کہ جو کچھ ہے، اُس کا خیال رکھے اور اُس پر غوروفکر کرے اور فلاح و بہبود کی خاطر استعمال میں لائے.
چونکہ خیالات کائنات کی جانب سے نقوش کی صورت نازل ہوتے ہیں اور انسان کے قلب و ذہن میں پروسیس ہوتے ہیں… ربِ کائنات کی مشیت ہے کہ کچھ منفی بیرونی ذرائع اُن نقوش میں سے چند ایک کو تبدیل کر دیتے ہیں. وہ کرپٹ شدہ نقش جب انسان کے قلب و ذہن میں نازل ہو کر پروسیس ہوتے ہیں تو نتیجہ کچھ عجیب و غریب برآمد ہوتا ہے. خیال سے عمل شروع ہوتا ہے.. اور ظاہر ہے کرپٹ خیال سے بھی عمل ہو گا جس کا نتیجہ نقصان دہ ہو گا.
یہ منفی بیرونی ذرائع اس لیے ضروری ہیں تاکہ مثبت ذرائع کا جوڑا مکمل ہو.
اِن منفی ذرائع کی خیالات میں کرپشن کو وسوسہ بولتے ہیں.
اگر وسوسہ براہِ راست ہو تو “شیطان” کی جانب سے ہوتا ہے. شیطان اُسی منفی ذریعہ کا نام ہے. براہِ راست وسوسہ ڈالنے کی طاقت صرف ایک جن یعنی کہ ابلیس کو دی گئی ہے.. کسی اور میں یہ طاقت نہیں.
اگر وسوسہ بالواسطہ ہو تو کسی دوسرے انسان یا نارمل جن کی جانب سے ہوتا ہے.. بنیادی وجہ ابلیس ہی رہتی ہے. خیال کو اچھوت کی مانند ایک انسان یا جن سے دوسرے انسان یا جن تک خاموشی سے سفر کرنے کی عادت بھی ہوتی ہے.
سورۃ الناس میں اسی لیے جن و انس، دونوں کے وسوسوں سے پناہ مانگی گئی ہے. خیالات کو خراب یا مجرمانہ ہونے سے روکنے کا مکمل نظام موجود ہے.
ایک اہم بات یہ کہ ہمیشہ برے خیالات انسان میں داخل ہو کر انسان کو گناہ یا جرم کی جانب مائل کرتے ہیں جبکہ انسان کے اندر ایک اور دشمن تاک لگائے بیٹھا ہے جس کا نام “نفس” ہے…… یہی نفس “اصل انسان” ہے جو کبھی برائی کی طرف راغب ہوتا ہے، کبھی ملامت کرتا ہے، اور کبھی مطمئن ہو کر تمام منفی طاقتوں سے محفوظ ہو جاتا ہے. یہی نفس وسوسوں اور عام خیالات کو “پروسیس” کرتا ہے ورنہ شیطان اپنی قوت سے کوئی کام سرانجام نہیں دے سکتا-
۔ اسی طرح شیطان کی جانب سے دل میں آنے والے خیالات بھی شیطانی وسوسے ہوتے ہیں ،اور کبھی انسان کو پرہیزگاری میں انتہاپسندی کی وجہ سے بھی جو خیالات آتے ہیں ان کو بھی وسوسہ کہا جاتا ہے۔

“۔۔۔الوسوسۃ حدیث النفس یقال وسوست الی نفسہ ای حدثتہ حدیثا و اصلھا الصوت الخفی و منھا الوسواس للصوت الجلی”

(تفسیر حقانی:5/34،تفسیر سورۃ الناس،آیت4)

شیطان جو کہ انسان کا ازلی دشمن ہے ،کسی طرح انسان کو سکون سے رہنے نہیں دیتا۔ہر ایک کو اس کے حال و ایمان کے معیار کے مطابق وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔اس کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ انسان کو اس کے خالق کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کردے ،جب اس پر بس نہیں چلتا تو تو سب سے اہم عبادت نماز کے اندر اس کے دل میں خیالات ڈالتا رہتا ہے۔کبھی وضو کے بارے میں تو کبھی طہارت کے بارے میں انسان کو شکی بنا دیتا ہے۔کبھی میاں بیوی کے درمیان تو کبھی دو مسلمانوں کے درمیان شکوک و شبہات کے زریعے اختلافات ڈالتا رہتا ہے۔غرض یہ کہ یہ شیطانی وسوسے ساری زندگی چلتے رہتے ہیں۔ وسوسوں کا آنا انسان کے اختیار میں نہیں؛لیکن اس پر عمل کرنا یا نہ کرنا انسان کے اختیار میں ہوتا ہے؛تاہم اس سے ایمان میں کچھ فرق نہیں آتا جب تک ان وسوسوں کو زبان پر نہ لایا جائے یا اس کے مطابق عمل نہ کیا جائے۔

“وَعَنْ اَبِیْ ہُرَیرَۃَ قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم:اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِیْ مَا وَسْوَسَتْ بِہٖ صَدْرُھُا مَا لَمْ تَعْمَلْ بِہٖ اَوْ تَتَکَلَّمْ۔”

(صحیح البخاری و صحیح مسلم)

ایک روایت میں وسوسوں کے آنے کو صریح ایمان کہا گیا ہے۔کیونکہ چور وہیں چوری کرنے کے لیے جاتا ہے جہاں دولت ہو اور شیطان بھی وہیں زیادہ زور لگاتا ہے جس دل میں ایمان ہو۔

” وَعَنْ ابی ھریرۃ قَالَ:جَاءَ نَاسٌ مِّنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَاَلُوْہُ اِنَّا نَجِدُ فِی اَنْفُسِنَا مَا یتَعَاظَمُ اَحَدُنَا اَنْ یتَکَلَّمَ بِہٖ قَالَ:َوَقَدْ وَجَدْتُّمُوْہُ ؟قَالُوْا نَعَمْ قَالَ: ذَاکَ صَرِیحُ الْاِیمَانِ۔” ۔(مشکوٰۃ :صفحہ87،باب الوسوسۃ)

احادیث مبارکہ میں وسوسے کے علاج کے لیے دُعائیں اِرشادفرمائی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر عقیدے کے بارے میں وسوسے آئے تو اٰمَنْتُ بِاللہ وَرُسُلِہ پڑھ لیا جائے،نماز میں وسوسے آئے تو اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ،دیگر معاملات میں وسوسے آئے تو لاحول ولاقؤۃ پڑھ لیا جائے،اس کے علاوہ ایک سیدھا سا علاج یہ ہے کہ جو بھی وسوسہ آئے ،فور اً اس خیال کو چھوڑ کر دوسرے خیال میں خود کو مشغول کیا جائے۔

حاصل یہ ہے کہ وسوسوں کے بارے میں جتنا سوچا جائے گااتنے ہی زیادہ ہوتے جائیں گے۔اور جب اس کی طرف توجہ نہ دی جائے تو خود بخود دور ہوجاتے ہیں۔اور مسنون دعاؤں سے اس کا علاج کیا جائے ۔


سید محمد راشد علی رضوی

سید محمد راشد علی رضوی ایک اسلامک اسکالر ہیں۔ آپ تقریبا ۳۱ سال سے مختلف اداروں میں تدریس وابستہ رہے ہیں۔

پر بھیجیں ۔ ask@parhlo.comاپنے مسئلے کو تفصیل سے بیان کریں اور اپنے سوالات اس ہفتہ وار

سبجیکٹ لا ئن میں لکھیں۔ point of deen

نوٹ: اس کالم میں دی گئی رائے یا مشورہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ادارہ ” پڑھ لوڈاٹ کام ” ان خیالات کی عکاسی کریں


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *