کوئٹہ کے بااثر شخص کے ہاتھوں 17 سالہ جبران آغا کا قتل


-1
justice for jibran

صوبہ بلوچستان کے دارلخلافہ کوئٹہ میں پیش آیا قتل کا ایک ہولناک واقعہ۔ جس میں ایک بااثر شخص کے بیٹے نے 17 سالہ نوجوان کو چھریوں کے وار کرکے قتل کردیا ۔

یہ واقعہ عید کے تیسرے دن کوئٹہ کے ائیرپورٹ روڈ پر پیش آیا جہاں 17 سالہ جبران آغا کو ہوبیر خان کاکڑ نامی ایک بااثر شخصیت نے چھریوں کے وار مار کر قتل کردیا۔ واقعے کے فورا بعد ہوبیر خان کاکڑ موقع واردات سے فرار ہوگیا۔ البتہ قتل وجہ اب تک معلوم نہیں ہوسکی ہے۔

گزشتہ روز مشہور ٹی وی ہوسٹ وقار ذکاء کو لائیو سیشن انٹرویو دیتے ہوئے جبران آغا استاد اور ان کے دوست عمادالدین نے اس پورے معاملے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ابتداء میں کچھ خبریں زیر گردش تھی کہ یہاں کوئی لڑکی کا معاملا تھا۔ جس کو انہوں سرے سے تردید کردیا اور کہا ایسی غلط جبریں کوئی نہ چلائے کیونکہ ایسا کوئی معاملا نہیں ہے۔ البتہ جبران کو قتل کرنے والا ہوبیر خان کاکڑ ہے جبکہ ہوبیر خان کاکڑ کوئٹہ کے چند اثر و رسوخ رکھنے والے خاندان کا لڑکا ہے ۔ جو اس رات جبران اغا پر ائیرپورٹ پر حملا کرکے وہاں سے فرار ہوگیا تھا۔

عمادالدین نے اس حوالے سے مزید بتایا کہ ہوبیر کاکڑ کا خاندان بہت طاقتور ہے۔ ہوبیر کاکڑ، جبران پر حملے کے بعد اپنی گاڑی جائے وقوعہ پر ہی چھوڑ کر بھاگ گیا تھا البتہ ہوبیر کاکڑ کی گاڑی اب بھی پولیس کی تحویل میں ہے۔

البتہ اس واقعے کے بارے میں عمادالدین نے مزید کہا، ہوبیر خان نے جبران آغا پر چھریوں سے حملا کیا گیا تو اس ہی دوران اس نے کچھ کرکے کے اپنے دوست شاہجہاں سیلمان اور عثمان درانی سے رابطہ کرکے مدد کو طلب کیا۔ جیسے ہی یہ سب وہاں پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ جبران آغا انتہائی زخمی حالت میں وہاں گرا ہوا تھا البتہ اس کی سانسیں چل رہیں تھیں تو وہ اس کو فورا وہاں سے اسپتال لے گئے۔ وہاں جاکر یہ دیکھتے ہیں کہ وہاں پر ہوبیر پہلے سے ہی موجود ہے۔ عثمان، ہوبیر کاکڑ کو وہاں پکڑنے کی کوشش کرتا ہے جس پر ہوبیر کاکڑ عثمان پر بھی چھریوں سے حملا کرتا ہے۔ جس کے باعث عثمان بھی زخمی ہوجاتا ہے۔ ابھی اس وقت عثمان درانی بھی اسپتال میں زیر علاج ہے۔

دوسری جانب جبران آغا کے استاد اور دوست عمادالدین نے بتایا کہ ابھی ان کی اطلاعات کے مطابق اس پورے واقعے کے بعد ہوبیر خان کاکڑ اور اس کی پوری فیملی کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئی ہے۔

جبکہ مقتول جبران آغا کے دوست شاہجہان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پوسٹ شئیر کی ہے۔ جس میں وہ اور مقتول جبران آغا موجود ہیں۔ اس میں شاہجہان نے لکھا ہے کہ میرے دوست نے اپنی آخری سانسیں میرے ہاتھوں میں لی ہیں۔

البتہ اس واقعے کو ٹوئیٹر پر جبران آغا کے خاندان اور دوستوں نے ٹوئیٹ کے ذریعے آٹھایا تھا۔ جس اس وقت ٹوئیٹر کا ٹاپ ٹرینڈ بند چکا ہے اور پورا ملک اس کی آواز آٹھا رہا ہے۔ جبکہ ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے بھی اس معاملے پر جبران آغا اور ان کے خاندان کے حق میں اپنی آواز بلند کی ہے۔

اگرچہ بلوچستان حکومت اور وفاقی حکومت کی جانب سے اس پر کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ اس طرح کے ظلم و بربریت کے واقعات کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت خواہ صوبائی ہو یا وفاقی اس کو جلد از جلد کارروائی کرکے کے مجرمان کو کیفرکردار تک پہنچانا چاہیے۔


Like it? Share with your friends!

-1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *