ہمارا تعلیمی نظام نہ اچھے طالب علم پیدا کر رہا ہے اور نہ اچھے شہری، طارق بنوری


0

ہفتہ کو کراچی لٹریچر فیسٹیول کے دوسرے دن منعقدہ ہائیر ایجوکیشن سے متعلق سیشن میں شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اچھے شہری پیدا کرنے کے لیے یونیورسٹیوں کو خود مختاری اور تعلیمی آزادی کی ضرورت ہے۔ کئی مقررین نے ملک کی اعلیٰ تعلیمی پالیسیوں اور نظام میں بڑی اصلاحات کا مطالبہ بھی کیا۔

تفصیلات کے مطابق سیشن جس کا عنوان تھا ‘اعلیٰ تعلیم: اچھے شہریوں کی تخلیق، نہ صرف اچھے طلباء’، اسے فوزیہ شمیم ​​نے موڈریٹ کیا، جنہوں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان (ایچ ای سی) کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر طارق بنوری سے کہا کہ یونیورسٹیاں اچھے شہری کیسے پیدا کر سکتی ہیں، نہ صرف اچھے طلباء۔

Image Source: Twitter

جس پر ایچ ای سی کے چیئرمین طارق بنوری نے کہا کہ ہماری تعلیم نے اچھے طلباء یا اچھے شہری پیدا کرنے پر توجہ نہیں دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ان غلطیوں کی قیمت چکا رہے ہیں جو ہم نے برسوں میں کی ہیں۔

اس پر موقع پر انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی بات کی وضاحت کی کہ اس مسئلہ پر صحیح طریقے سے غور کرنے کے لیے کئی باتوں پر غور کرنا چاہیے۔ سب سے پہلے، علم ایک ایسی چیز ہے جسے ایک کمیونٹی مل کر پیدا کرتی ہے۔ علم کی تخلیق ایک فرد کی مشق نہیں ہے، جیسا کہ لوگ پوری دنیا میں ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں، ڈاکٹر طارق بنوری نے وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا کہ انسانی معاشروں نے مشترکہ بیانیے کی ترقی کے لیے مشترکہ علم کی تعمیر کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ علم مختلف اقسام پر مشتمل ہے۔ مثال کے طور پر، علمی علم وہ ہے جو طلباء کلاس رومز میں سیکھتے ہیں جبکہ تکنیکی علم مشق، تجربے، شمولیت اور تعامل کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔

Image Source: HEC

ایچ ای سی کے چیئرمین نے کہا کہ علمی اور تکنیکی علم دونوں کی مختلف سمتیں ہیں اور انہیں تدریس میں الگ الگ طریقوں کی ضرورت ہے۔

چیئرمین ایچ ایس سی نے مزید کہا کہ علم کی ایک تیسری قسم ہے جو نہ تو کلاس رومز میں پڑھائی جاتی ہے اور نہ ہی مشق اور تجربے سے حاصل کی جاتی ہے، یہ انصاف کا علم ہے جو صرف ہمدردی کے جذبے کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

طارق بنوری نے وضاحت کی کہ مثال کے طور پر پاکستانی معاشرے میں زندگی گزارنے والی عورت کے تجربات، یا اقلیتی برادری یا مغرب میں سیاہ فام فرد ہونے کے بارے میں نہ سیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی سکھایا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں ڈاکٹر طارق بنوری نے کہا کہ مختلف قسم کے علم کی فراہمی کے لیے مختلف طریقوں اور مواصلاتی تکنیکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم ایک بہتر اور زیادہ خوشحال معاشرہ چاہتے ہیں تو ہمیں علم کے ذرائع کو سمجھنا چاہیے اور اس تمام عمل میں جامعات کا مرکزی کردار ہے۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے اساتذہ طلباء کو عملی سرگرمیوں اور مشقوں میں شامل کر سکتے ہیں تاکہ وہ علم کے ذرائع کو سمجھ سکیں اور اس طرح وہ بہتر طلباء اور شہری بن سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹیوں کی خود مختاری کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ انہوں نے اساتذہ اور طلباء کو مشورہ دیا کہ وہ جامعات کی خود مختاری، تعلیمی آزادی اور جائز حقوق کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔

Story Courtesy: THE NEWS


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *