کراچی میں پولیس نے انسانیت کی ایک اعلی مثال قائم کردی


-1

پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کا پولیس پر اعتبار اور بھروسہ وہ نہیں ہے، جو عموماً ترقی یافتہ ملکوں میں عوام کے دلوں میں ہوتا ہے، یہاں بڑی تعداد میں عوام کے پولیس سے شکوے شکایت ہوتے ہیں، کوئی رشوت خوری کے الزامات لگاتا ہے، تو کوئی طاقت کا ناجائز استعمال کرنے والا کہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تاثر کے باعث ہمیں عموماً پولیس کی منفی خبریں زیادہ ہی سننے کو ملتی ہیں۔ لیکن یہاں ایک بنیادی سوال جنم لیتا ہے کیا ہر اہلکار ایک جیسا ہے، تو یقینا میرا اور آپ کا جواب نفی میں ہی ہوگا۔

اس سلسلے میں ایک واقعہ حال ہی میں کراچی میں پیش آیا، جس میں ناصرف پولیس اہلکاروں نے انسانیت کی اعلٰی مثال قائم کی بلکہ اس تاثر کو ایک بار پھر غلط ثابت کردیا کہ ہر اہلکار ایک جیسا ہوتا ہے۔

Image Source: Pakistan Today

تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے ایک گروپ کراچی جابز (2022- 2021) میں ایک سہیل خان نامی شخص کی جانب سے ایک پوسٹ جاری کی گئی، جس میں انہوں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا احوال کچھ یوں بتایا کہ بدھ کی رات ہم دوستوں کا عثمانیہ ریسٹورنٹ ہائی وے جانے کا پروگرام بنا، جہاں سے واپسی آتے ہوئے تقریباً 11 بجے کے قریب ٹول پلازہ کے پاس ہماری گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا۔ اس دوران جب گاڑی سائیڈ میں لگاکر ٹائر تبدیل کرنے لگے تو معلوم ہوا کہ گاڑی میں جیک تو موجود ہے، ٹائر کھولنے کے لئے اوزار موجود نہیں ہیں

شہری کے مطابق ابتداء میں تو ہم بہت پریشان ہوئے، لہذا ہم نے سوچا ہائی وے پر گزرنے والی گاڑیوں کو مدد کے لئے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن افسوس کے ہماری یہ محنت ضائع گئی، کسی نے گاڑی نہ روکی، البتہ کچھ گاڑی والوں نے گزرتے ہوئے، ہاتھ سے سلام بھی کیا۔ آگے چل کر سندھ حکومت کی ایک ایمبولنس دیکھائی دی لیکن اوزار ان کے پاس بھی موجود نہ تھے۔

Image Source: The News

فیس بک پوسٹ میں شہری نے مزید بتایا کہ ہمیں روڈ پر خوار ہوتے کافی ٹائم ہوگیا تھا تاہم خوش قسمتی سے اس روڈ سے گڈاپ تھانے ضلع ملیر کی ڈیوٹی پر مامور 15 پولیس موبائل کا گزر ہوا۔ چنانچہ انہوں نے ہمیں سڑک کے کنارے دیکھ کر گاڑی روکے اور ہم سے پوچھا کہ کیا پریشانی ہے، کیوں کھڑے ہوئے ہو؟ جس پر ہم نے انہیں اپنی مشکل سے آگاہ کیا، تو انہوں اپنی گاڑی سائیڈ میں لگائی اور پولیس موبائل سے اوزار نکالے اور خود سے ٹائر تبدیل کرنے لگے، ہم نے انہیں کافی منع کیا، لیکن انہوں خود سے ٹائر تبدیل کردیا اور تائر بدلنے کے بدلے انہوں نے ہم سے دعاؤں میں یاد رکھنے کی درخواست کی۔

فیس بک صارف نے مذکورہ پوسٹ کے آخر میں لکھا کہ ہم نے ان کے ساتھ تصویر بنوانے اور تصویر کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کی درخواست کی۔ جس پر انہوں حامی بھر ملی۔ شہری سہیل خان کا کہنا تھا کہ جہاں ہم آئے روز پولیس کے منفی کردار پر تنقید کرتے وہیں ایسے مثبت عمل کی تعریف بھی ہمیں کرنی چاہئے۔

واضح رہے چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک شہری کا والٹ یعنی بٹوا کہیں جاتے ہوئے ایک مقام پر گر جاتا ہے، جوکہ تھانہ ملیر کینٹ کی حدود میں اے ایس آئی اویس تنولی کو ملتا ہے، اور وہ بہادر اور ایماندار پولیس افسر اپنی پیشہ ورانہ خدمات کو دیکھتے ہوئے، اس والٹ کو آٹھا کر، والٹ کے مالک سے رابطہ کرتا ہے اور اسے اس کی امانت سہی سلامت واپس کرتا پے۔

یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ افسوس کے ساتھ کیا ہمارا روائیہ بحیثیت قوم کبھی پولیس اہلکاروں سے مثالی رہا ہے، شاید نہیں ہے۔ عوام انہیں وہ عزت نہیں دیتی جو انہیں ملنی چاہئے، لہٰذا غلطیاں اور تلخیاں دونوں جانب ہے، اور دونوں کو ہی انہیں مل کر ختم کرنا ہوگا۔ تاکہ ہمارا بھی ایک مثالی معاشرہ بن سکے۔


Like it? Share with your friends!

-1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *