دل دہلا دینے والی ہارر فلمیں، جن پر پابندی لگادی گئی


1

ہم میں سے بہت سے لوگوں کو ڈراؤنی فلمیں( ہاررموویز ) دیکھنے کا شوق ہوتا ہے۔ لیکن کچھ ڈراؤنی فلمیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں اکیلے دیکھنا آسان نہیں ہوتا۔ یہاں ہم آپ کو ایسی ہی ڈراؤنی فلموں کے بارے میں بتارہے ہیں جن کو ان کی خوفزدہ اور ڈرانے دینے کی وجہ سے پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہ چھ ایسی ہارر سے بھرپور فلمیں تھیں جن پر سنیما گھروں میں دکھائے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی بعد ازاں ان کی ڈی وی ڈیز ریلیز کرنے سے پہلے ان کے متعدد مناظر کو فلم سے نکال دیا گیا تھا۔

ہارر فلمیں جن پر پابندی لگادی گئی

دا ایکسورسسٹ

Image Source: File

یہ ایک ایسی فلم ہے، جسے سب سے زیادہ ڈراؤنی فلموں کی لسٹ میں ہمیشہ شامل کیا جاتا ہے۔ سنہ 1973 میں جب یہ فلم ریلیز ہوئی تو دنیا بھر میں اس نے سرخیوں میں نمایاں جگہ پائی۔ اس فلم میں ایک چھوٹی بچی پر شیطانی طاقت کا قبضہ اور پھر اس سے نجات کے لیے کیے جانے والے جتنوں نے دنیا بھر کے ہارر فلموں کے شائقین کو متاثر کیا تھا۔ اسے دیکھنے کے لیے امریکہ میں برفباری کے دوران بھی لوگ سنیما گھروں کے باہر قطاریں لگائیں کھڑے ہوتے تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق متعدد لوگ فلم کے دوران بے ہوش ہو جاتے، الٹیاں کرنے لگتے یا پھر ان کی حالت اتنی بگڑ جاتی کہ انہیں سنیما ہال سے باہر نکالنا پڑ جاتا تھا۔ نابالغ افراد کو بھی یہ فلم دیکھنے کی اجازت تھی مگر صرف اس شرط پر کہ وہ اپنے کسی بڑے کے ساتھ فلم دیکھنے جائیں۔ تاہم کئی ممالک میں اسے دکھائے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس فلم پر ابتدائی دنوں میں سنگاپور میں پابندی عائد کی گئی تھی، الزام تھا کہ یہ فلم اور اس میں استعمال ہونے والی زبان کسی خاص مذہب یا اس کی روایات کو بدنام کرنے سے روکنے والے اصولوں کی خلاف ورزی کرتی ہے بعد میں فلم کے کچھ حصے کاٹ کر اسے سنگاپور میں دکھایا گیا۔ اسی طرح ملائیشیا میں بھی ایکسورسسٹ کی نمائش پر پابندی عائد کردی گئی تھی جبکہ برطانیہ میں یہ فلم صرف بالغ افراد کو دکھائے جانے کی اجازت دی گئی۔ لیکن سنہ 1984 میں اس فلم کی ڈی وی ڈیز دکانوں سے ہٹوا دی گئیں۔

Image Source: File

اگلے گیارہ برس تک اس فلم کی وڈیوز بیچنے پر ملک میں پابندی عائد رہی حالانکہ تب بھی یہ فلم کبھی کبھی کسی سنیما ہال میں دکھا دی جاتی تھی۔سنہ 1999 میں فلم بورڈ نے اس پر سے پابندی ہٹا دی۔اس دوران سنیما کی دنیا میں اتنا کام ہو چکا تھا کہ اس پچیس برس کے عرصے کے بعد فلم کا اثر اتنا خوفزدہ کرنے والا شاید نہیں رہا۔ اس فلم کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ تنازعات سے گھری ہونے کے باوجود یہ آسکر ایوارڈز کے لیے بہترین فلم کی دوڑ میں شامل ہونے والی پہلی ڈراؤنی فلم تھی۔

کینیبل ہولوکوسٹ

Image Source: File

ڈراؤنی فلموں کے شائقین جانتے ہیں کہ سنہ 1979 میں ریلیز ہونے والی یہ فلم بے حد بدنام زمانہ فلم تھی اس میں اصل جانوروں کی جان لی گئی اور بے پناہ تشدد دکھایا گیا۔ فلم کی کہانی ایک ریسکیو ٹیم کی جانب سے ایمازون کے جنگلات میں لاپتہ ہو جانے والی فلمسازوں کی ایک ٹیم کو تلاش پر مبنی ہے۔اس فلم کی ریلیز کے بعد دو اداکاروں کے منظر عام سے غائب ہونے کے پر فلم کے ہدایتکار روگیرو دیوداتو کے خلاف قتل کا مقدمہ بھی چلا۔بعد میں جب وہ ان میں سے ایک کو عدالت لے کر آنے میں کامیاب رہے تب جا کر معاملہ ختم ہوا اور انہیں الزامات سے بری کر دیا گیا۔تاہم انہیں فلم میں جانوروں پر تشدد کے سبب جرمانہ دینا پڑا اور اٹلی میں تین برس تک اس فلم پر پابندی عائد رہی۔ مزید کئی برسوں تک دنیا کے متعدد ممالک میں یہ فلم نہیں دکھائی گئی جس میں آسٹریلیا، ناروے، برطانیہ اور آئرلینڈ بھی شامل تھے۔امریکہ کو متنازع فلموں پر پابندی کے معاملے میں دیگر ممالک سے زیادہ سخت سمجھا جاتا ہے۔ وہاں کینیبل ہولوکوسٹ پر پانچ برس تک پابندی عائد رہی۔ سنہ 1985 میں جب یہ سنیما گھروں میں لگی تو اس کے کچھ ہی ہفتوں کے اندر دوبارہ سنیما ہالوں سے اُتار دی گئی۔ فلم کی امریکہ میں باقاعدہ ریلیز سنہ 2005 میں ممکن ہو سکی۔

گروٹیسک

Image Source: File

یہ جاپانی ہارر فلم 2009 کی ہے، جس میں ایک ڈاکٹر کو ایک نوجوان جوڑے پر خوفناک تشدد کرتے دکھایا گیا ہے۔ ڈسٹریبیوٹرز کو امید تھی کہ اٹھارہ برس سے زیادہ عمر والے افراد کو یہ فلم دکھانے کی اجازت مل جائے گی لیکن برطانیہ میں اس پر اس لیے پابندی عائد کر دی گئی کہ اس میں بہت زیادہ جنسی تشدد دکھایا گیا تھا۔اس پر یہ اعتراض بھی کیا گیا تھا کہ اس میں اصل مواد اور کرداروں کی اہمیت واضح نہیں ہو رہی ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اس فلم کو دیکھنے والے ’خود کو نقصان‘ پہنچا سکتے ہیں۔آج بھی برطانیہ، ملائیشیا اور فلپائن میں اس فلم پر پابندی عائد ہے۔ابتدائی دنوں میں جاپان میں یہ فلم کم متنازع رہی، لیکن برطانیہ کی طرف سے پابندی کے بعد کئی ویب سائٹس نے اسے ہٹادیا۔فن لینڈ، فرانس اور اٹلی میں بالغ افراد کو یہ فلم دیکھنے کی اجازت ہے جبکہ یہ فلم سویڈن، نیدرلینڈز اور امریکہ میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔

دا ہیومن سینٹیپیڈ ٹو

Image Source: File

اس نام سے پہلی فلم سنہ 2009 میں آئی تھی۔ اس ڈچ فلم کی کہانی ایک جرمن سرجن کے بارے میں ہے، جو تین سیاحوں کو یرغمال بنا کر ان پر خطرناک قسم کے تجربات کرتا ہے۔جبکہ فلم کے اس دوسرے حصے میں ایک ایسے شخص کی کہانی دکھائی گئی ہے، جو پہلی کہانی سے متاثر ہو کر انہی تجربات کو دوبارہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس فلم میں وہ مزید آگے بڑھ جاتا ہے۔فلم کے مصنف اور ہدایتکار ٹوم سِکس اس فلم کے لیے ’اب تک کی سب سے خوفناک‘ فلم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔دا ہیومن سینٹیپیڈ ٹو کے خلاف دنیا بھر میں پابندیاں عائد کی گئیں۔ جبکہ کئی جگہ ریلیز کے لیے فلم کے کچھ متنازع حصے کاٹ دیئے گئے۔آسٹریلیا میں اسے دیکھنے کی کم از کم عمر اٹھارہ برس مقرر کر دی گئی۔ برطانیہ میں بھی ایسا ہی ہوا لیکن فلم کے کئی حصے کاٹے جانے کے بعد آج بھی آئرلینڈ، مالدیپ اور فلپائن میں اس فلم پر پابندی عائد ہے۔

دا ٹیکسس چین سا مسیکر

Image Source: File

سال 1974 میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں جس انداز میں تشدد کو دکھایا گیا تھا، اسے پسند نہیں کیا گیا۔ اس کے مناظر کو فحش بھی قرار دیا گیا۔اس فلم کی کہانی بدنام زمانہ قاتل ایڈ جین کے بارے میں تھی، جو قتل کرنے کے بعد متاثرین کے جسمانی اعضا کو گھر کی سجاوٹ کے لیے استعمال کرتا تھا۔اس پر دنیا کے متعدد ممالک میں پابندی عائد کر دی گئی، جن میں برازیل، چلی، فن لینڈ، فرانس، آئس لینڈ، آئرلینڈ، ملائیشیا، سنگاپور، سویڈن، ناروے، نیوزی لینڈ ارو جرمنی کے چند مقامات شامل ہیں۔

دا اِیول ڈیڈ

Image Source: File

سال 1981 میں ریلیز ہونے والی امریکی فلم ’دا ایول ڈیڈ‘ کا شمار بھی مقبول ترین ڈراؤنی فلموں میں ہوتا ہے۔اس فلم کی کہانی کالج کے پانچ طلب علموں کے گرد گھومتی ہے، جو چھٹی منانے جنگلات میں ایک دور دراز کیبن میں جاتے ہیں۔ وہاں انہیں ایک آڈیو ٹیپ ملتی ہے، جسے سُن کر وہ کچھ ایسی بد روحوں کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں، جو ان کی جان کی پیاسی ہو جاتی ہیں۔

مزید پڑھیں: کراچی:‘بھوتوں بھرا ریسٹورنٹ، کھانے پیش کرنے کیساتھ ڈرایا بھی جاتا ہے

بے انتہا خون خرابے کے سبب یہ فلم متنازع بن گئی اور اس پر ملائیشیا، سنگاپور، برطانیہ، آئرلینڈ اور چلی میں پابندی عائد رہی۔ متعدد ممالک میں اس کے بہت سے مناظر نکالنے کے بعد اسے ریلیز کی اجازت ملی۔تاہم اپنی مقبولیت کے سبب اِیول ڈیڈ ایک فرینچائز میں تبدیل ہوگئی۔سنہ 2013 میں چوتھی ایول ڈیڈ ریلیز ہوئی تھی۔اب اس فلم سے متاثر ویڈیو گیمز اور کومک بُکس بھی موجود ہیں۔


Like it? Share with your friends!

1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *