دمہ کی علامت،وجہ اور کیسے بچا جا سکتا ہے؟


0

عالمی ادارہ صحت اور عالمی دمہ نیٹ ورک کے مطابق دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد دمہ سے متاثر ہیں اور اس تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جبکہ یہ دائمی مرض ہر سال تقریباً ڈھائی لاکھ افراد کی جانیں لے لیتا ہے۔

Dama Janlava Marz
Image Source: Unsplash

ماہرین کے مطابق دنیا میں تقریباً300 ملین افراد دمہ کے مرض سے متاثر ہوتے ہیں، بد قسمتی سے پاکستان میں بھی یہ مرض بڑھ رہا ہے اور14 ملین افراد میں سانس کی اس بیماری کی تشخیص کی گئی ہے، طبی اعداد و شمارکے مطابق پاکستان میں دمہ میں مبتلا51 فیصد بالغ اور 32 فیصد نابالغ افراد شامل ہیں،

اس مرض میں متاثرہ مریضوں کوکھانسی، پسلیاں چلنے اور سانس لینے میں دشواری یا سانس رکنے کے شدید دورے بھی پڑتے ہیں۔

دمہ کیا ہے؟

دمہ یا استھما ایک دائمی مرض ہے، جو تاعمر انسان کو اپنی گرفت میں جکڑ کر رکھتا ہے سانس کی نالیوں میں خرابی یا پھیپھڑوں کی نالیوں کے باریک ہونے کے سبب سانس لینے میں تکلیف کے مرض کو دمہ سمجھا جاتا ہے

Dama Janlava Marz
Image Source: Unsplash

میڈیکل سائنس میں کہا جاتا ہے کہ دمہ پھیپھڑوں کی دائمی بیماری ہے۔ اس میں سانس کی نالیاں تنگ ہو جاتی ہیں اور مریض کوسانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے۔

Dama Janlava Marz
Image Source: Unsplash

اس بیماری میں بنیادی طور پرپھیپھڑوں کی دوبڑی نالیاں جو سانس لینے میں مددگار ہوتی ہیں سوجن کا شکار ہو جاتی ہیں۔

دھول مٹی سے اندرونی یا بیرونی الرجی، موسم کی تبدیلی اور سانس کی نالیوں میں انفیکشن، فضائی آلودگی، حقہ سگریٹ تمباکو کے استعمال کو دمہ یا استھما کی اہم وجوہات جانا جاتا ہے۔

ہومیوپیتھک طریقہ علاج کے حوالہ سے دمہ (استھما) بھی میگرین اور معدہ کے زخم کی طرح ایک اعصابی جسمانی تکلیف ہے۔ ہوا کی نالیوں کے اچانک سکڑنے کی وجہ سے خرخراہٹ اور سانس کی رکاوٹ کے دَورے پڑتے ہیں۔

Dama Janlava Marz

 دمہ کے مریض کے پھیپھڑوں کی نالیاں کمزور ہو جاتی ہوں اور ریشہ کی پیداوار زیادہ ہو جاتی ہے۔ نالیاں تنگ ہو جانے کے سبب اندر کی ہوا اور ریشہ کو باہر نکالنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ مریض جلدی جلدی چھوٹا سانس لینے پر مجبور ہوتا ہے۔ لمبا اور صحیح سانس اِس لئے نہیں لے سکتا کیونکہ سینہ پہلے ہی بھرا ہوتا ہے۔ پوری کوشش سے سینہ، بازو اور گردن کا زور لگاتا ہے کہ کسی طرح سانس کی رکاوٹ دور ہو؛ کھانسی سے ریشہ یا بلغم باہر نکلے اور اُس کی جان میں جان آئے۔

دمہ کی اقسام

دمہ کی تکلیف بچوں، بڑوں، مردوں، عورتوں، سب میں بہت عام ہے اور اِس کا کسی علاقے یا عمر سے تعلق ۔ ایک قسم دمہ کی وہ ہے جس میں صرف ہوا کی نالیوں (برونکائی) میں تشنج نہیں ہے۔کے سبب سانس میں دِقت پیدا ہو جاتی ہے مگر نالیوں میں بلغم نہیں ہوتی۔

دوسری قسم جو بہت عام ہے وہ بلغمی دمہ ہے۔ اس میں بلغم نالیوں میں جمع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے نالیوں میں تشنج پیدا ہو کر دمہ کا دورہ ہوجاتا ہے۔ کھانسی آتی ہے بلغم خارج ہونے لگے تو سانس بہتر آنے لگتا ہے ورنہ مریض کی حالت قابلِ رحم ہوتی ہے۔

دمہ کن لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔

ان میں وہ افراد شامل ہیں جو وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں، یا وہ بچے جن کو سانس کی تکالیف اور بیماریاں زیادہ ہوتی ہیں، موٹاپے کا شکار افراد، زیادہ عرصے تک آلودگی یا دھویں کا سامنا کرنے والے افراد اور الرجی سے متاثرہ افراد۔

جدید تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ بچپن میں غذا ور ماحولیاتی عناصر سے الرجی کی شکایت پیدا ہونےو الوں کو بالغ عمر میں دمے میں مبتلا ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دمہ پیدا کرنے والے ماحولیاتی عناصر سے دور رہنے اور دمے کی علامات سے نمٹنےکے بارے میں معلومات کے ذریعے اس بیماری کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے بچوں، عمر رسیدہ افراد اور سانس کی انفیکشن سے متاثرہ افراد میں ایسا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے

یونیورسٹی آف کنساس کی تحقیق کے مطابق، دوران حمل دوسری سہ ماہی میں وٹامن ڈی کا حصول بچے میں دمہ کے خطرے کو کافی حد تک کم کر سکتا ہے۔ اگر حاملہ خواتین دن میں 10منٹ سورج کی روشنی میں گزاریں تو اس سے بچے کے سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔

محققین کے مطابق، شیرخوار بچوں کو دمے سے محفوظ رکھنے کی بہترین دوا ماں کا دودھ ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں 2016ء میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، شیرخوار بچوں کو ایک سال تک ماں کا دودھ پلانے سے انھیں استھما کے حملے سے بچایا جاسکتا ہے۔

یورپ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق، دمے کے دو سال سے کم عمر مریضوں کو اگر علاج کے لیے اسٹیرائڈز والی ادویات دی جائیں تو ان کا قد چھوٹا رہنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ فن لینڈ میں 12 ہزار بچوں پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن بچوں کو ایک لمبے عرصے تک اسٹیرائڈز والی ادویات دی جاتی ہیں، ان میں قد چھوٹا رہ جانے کا زیادہ امکان نظر آتا ہے۔

دمہ کی علامات

سینے کی جکڑن۔
سانس لینے میں تکلیف۔
سانس لینے کے دوران ’سیٹی‘ کی آواز آنا۔
کھانسی۔
سینے کے انفیکشن کا باربار ہونا۔
دوران نیند بے چینی۔
تھوڑی سی حرکت سے سانس پھول جانا اوربحال ہونے میں بہت وقت لگنا۔

رات اور صبح کے اوقات میں ان علامات میں زیادتی ہونا۔

دمے کی وجوہات

جینیاتی عوامل یا الرجی بیرونی عوامل سے مل کر اس بیماری کی شدت بڑھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دھواں بھی سانس کی تکلیف بڑھا سکتا ہے۔

ایسے افراد جو دمہ سے متاثر ہوتے ہیں، موسمیاتی یا ماحولیاتی تبدیلی بھی ان پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔

تمباکو کا دھواں خصوصا مضر ثابت ہوتا ہے کیوں کہ اس میں ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو سانس کی نالیوں میں سوزش بڑھاتی ہیں اور دمہ میں شدت لا سکتی ہیں۔ پولن، گرد اور مخصوص خوشبو بھی دمہ میں شدت کا سبب بن سکتی ہیں۔

Dama Janlava Marz
Image Source: Unsplash

خاندان میں سانس کی بیماریوں کی موجودگی بھی اس بیماری کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے

اگر دمہ کا خیال نہ رکھا جائے تو ایسی علامات سامنے آ سکتی ہیں جن پر قابو پانا مشکل ہو سکتا ہے اور یہ جان لیوا ہو سکتا ہے۔ کسی شدید دورے کے دوران سانس کی نالیاں اس حد تک سکڑ سکتی ہیں کہ مریض کو ری ایکشن ہو سکتا ہے اور سانس لینا نا ممکن ہو جاتا ہے۔

۔ سگریٹ کا دھواں 

۔ ہوائی آلودگی 

۔ وائرل انفیکشن 

۔ ائیر فریشنرز

۔ پرفیومز

۔ گھروں کی صفائی ستھرائی میں استعمال ہونے والے کیمیکل

Dama Janlava Marz
Image Source: Unsplash

 ایسی اشیا سے حتی الامکان گریز کرنا چاہیے جن سے دمہ کا مرض شدت اختیار کر لے۔ 

دمہ کا علاج

ڈاکٹرو ں کے مطابق دمے کا کوئی علاج نہیں۔ اور اس کی علامات کا مقابلہ کرنے کےلیے بہت کم ادویات موجود ہیں۔ جن میں انہیلر ، گولیاں اور ٹیکے شامل ہیں۔

Dama Janlava Marz
Image Source: Unsplash

ماہرین طب کے مطابق تھوڑی سی توجہ دے کر اس جان لیوا مرض پہ قابو پایا جاسکتا ہے۔

دمہ کے علاج کے لیے کسی مناسب وقت کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ جیسے ہی اس کی علامات ظاہر ہوں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

دمہ کے علاج میں ہوا کی نالیوں کو کشادہ کرنے والی ادویات کا استعمال سب سے مؤثر طریقہ مانا جاتا ہے۔ فوری علاج کے لیے ان ادویات کو براہ راست ہوا کی نالیوں اور پھیپھڑوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

Dama Janlava Marz
Image Source: Unsplash

اس مقصد کے لیے انہیلراورنیبولائزرکا استعمال کیا جاتا ہے۔

بلغم نکالنے والی اوراینٹی الرجی ادویات بھی دمہ کے علاج میں بہت مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔

۔ باقاعدگی سے ورزش کریں

۔ وزن کو قابو میں رکھیں

۔ خوراک میں توازن برقرار رکھیں

۔ سانس کی اکیسرسائیزز روزانہ کریں

۔ سگریٹ نوشی ترک کر دیں

  یوگا بھی دمہ کے علاج کا لیے ایک مؤثر طریقہ تصور کیا جاتا

اپنی سٹریس کو قابو میں رکھیں چونکہ سٹریس سے بھی دمے کا مرض شدت اختیار کر سکتا ہے۔

تیراکی، سائیکلنگ اور تیز چلنا دمہ کے مریضوں کے لیے فائدہ مند سرگرمیاں ہیں۔ تاہم سردی میں دوڑنا دمہ میں شدت لا سکتا ہے

               


Like it? Share with your friends!

0
Annie Shirazi

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *