بھارت کی مساجد میں خطاطی کرنے والا ہندو مصّور


0

دین اسلام سلامتی کا دین ہے اور قرآن مجید سرچشمہ ہدایت اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ اس کتاب میں درج ہر لفظ ہر آیت تلاوت کرنے والے کے دل و دماغ میں سرایت کرکے سکون واطمینان بخشتی ہے۔ یہ کتاب نا صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ دیگر مذاہب کے لئے بھی تحقیق وہدایت کا ذریعہ ہے اور بہت سے مذاہب اس کی تعلیمات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

پڑوسی ملک بھارت میں حیدر آباد دکن کے انیل کمار چوہان کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے جو قرآن کریم سے خاص عقیدت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہندو ہونے کے باوجود وہ اب تک ایک سو سے زائد مساجد کو بنا کوئی معاوضہ وصول کیے کلمہ طیبہ، قرآنی آیات اور دیگر مذہبی تحریروں و آرٹ ورک سے سجا اور سنوار چکے ہیں۔ وہ مساجد کے باہر یا اندر لگے بورڈ پر عربی اور اردو زبانوں میں احادیث بھی لکھتے ہیں۔ یہی نہیں اگر کوئی نعتیہ محفل سجتی ہے تو اس میں بھی انیل کمار چوہان کو ضرور مدعو کیا جاتا ہے۔

بی بی سی اردو کو اپنے انٹرویو میں انیل کمار چوہان نے بتایا کہ پیشے کے لحاظ سے وہ ایک مصّور ہیں اور اردو، عربی، ہندی، انگریزی، تیلگو اور بنگالی لکھنا جانتے ہیں۔ وہ ہندو ہیں اور مذہب ان کا ذاتی معاملہ ہے لیکن وہ ہر مذہب کا احترام کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ میں چاہتا ہوں ہر کوئی بھائی چارے کے ساتھ رہے ،ہمیں ملک میں محبت کے ساتھ رہ کر ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے۔

انیل کمار کے مطابق انہیں اردو زبان مکمل طور پر سیکھنے میں تقریباً آٹھ سال لگے لیکن عربی پر اب بھی انہیں باقاعدہ عبور حاصل نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں حیدرآباد میں دکانوں کے نام وغیرہ لکھنے کا کام کرتا تھا، جہاں کہیں کچھ لکھا ہوا دیکھتا تھا، اس کو ویسے ہی لکھنے کی کوشش کرتا، یوں ان کی اردو زبان سے واقفیت بھی ہوگئی اور پھر انہیں اردو کے سادہ اور سلیس الفاظ بھی سمجھ آنے لگے جس کے بعد انہوں نے بہت محنت سے فنِ خطاطی میں ڈپلومہ کرنے کے لئے حیدرآباد کے فائن آرٹس کالج میں داخلہ لیا لیکن پھر گھریلو مسائل اور دیگر وجوہات کی وجہ سے فن مصوری کا کورس مکمل نہیں کر سکا۔

انیل کمار نے 17 برس کی عمر میں خطاطی کا کام شروع کیا اور مصوری انہیں وراثت میں ملی ہے۔ اُن کی والدہ اور ماموں پینٹنگ کرتے تھے البتہ اردو خطاطی کرنے والے وہ اپنے خاندان کے پہلے فرد ہیں جب کہ ان کے نانا بھی ایک بہترین آرٹسٹ تھے جنہوں نے نواب دکن میر عثمان علی خان اور دیگر اہم شخصیات کی تصاویر بھی بنائیں تھیں۔

انیل کمار کا کہنا تھا کہ وہ مساجد میں کلمہ طیبہ تحریر کرنا یا “اللہ اکبر” جیسی عبارت لکھنے کام پہلے ہی شروع کرچکے تھے تاہم انہوں نے اسے ذریعہ معاش کے طور پر نہیں اپنایا تھا۔ البتہ انہوں نے اپنی عربی خطاطی کی ایک نمائش اپنے ذاتی خرچ پر لگائی لیکن اس سے ان کی زیادہ کمائی نہ ہو پائی لہٰذا یہ تجربہ ان کے لیے مایوس کن رہا۔

مزید پڑھیں: بھارت میں مسلمان شہری نے مذہبی رواداری کی اعلی مثال قائم کردی

چنانچہ جب ان کے پاس کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں تھا تو انہوں نے سوچا کہ فن پارے بنا کر بیچوں، لیکن پھر خیال آیا کہ کیوں نہ میں مساجدوں میں مفت میں ہی خطاطی کرلوں، ہاتھ بھی اچھا ہو جائے گا اور کچھ دلی تسکین بھی اس کام سے حاصل ہوگی۔ انہوں نے بالکل ایسے ہی کیا اور بازار میں ایک دکان کے باہر لکھ کر لگادیا کہ جس کو مساجد میں کلمہ یا کوئی خطاطی کروانی ہو رابطہ کرے، میں کام مفت کروں گایوں انہوں نے مساجدوں میں باقاعدہ لکھنے کا کام شروع کردیا۔

اس دوران انہوں نے قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ خلفائے راشدین کے نام لکھنے شروع کیئے تو مقبولیت زیادہ بڑھ گئی اور اعتراض بھی حد سے زیادہ کیا گیا۔ کچھ لوگوں نے ان پر اور ان کے مذہب پر اور کام پر ہزار طرح کی باتیں بنائیں اور کئی طرح کےاعتراضا اٹھائے ۔ہندو ہونے کی وجہ سے لوگوں نے ان کی پاکی و ناپاکی کے خلاف بھی بولنا شروع کردیا تو اس مسئلے کے حل کے لیے انہوں نے جامعہ نظامیہ سے رجوع کیا جہاں کے ذمہ داروں نے چھان بین کے بعد ان کے حق میں فتویٰ صادر کیا تاہم مسجد کے احترام کی تاکید کرتے ہوئے طہارت کر کے اور باوضو مسجد میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔

مزید پڑھیں: پاکستانی دوست نے نابینا بھارتی پڑوسی کی دیکھ بھال کرکے مثال قائم کردی

اس حوالے سے انیل کمار چوہان کا کہنا تھا کہ میں مانتا ہوں کہ میں ہندو ہوں، لیکن پاکی و ناپاکی، مسجد و مندر کے اصولوں سے بہت اچھے سے واقف ہوں، کبھی بھی وضو کئے بغیر مسجد میں داخل نہیں ہوا اور نہ مجھے مسجد کے آداب کی خلاف ورزی کرنے کا شوق ہے، اپنے مذہب سے عقیدت رکھتا ہوں اور دیگر مذاہب کی عزت کرتا ہوں۔ جہاں مساجدوں میں کلمے، کلام اور خدا کا نام احترام سے لکھتا ہوں، وہیں مندروں میں بھگوان کی مورتی بھی بناتا ہوں، لوگ مجھے عزت سے بلاتے ہیں ، میں محبت اور بھائی چارگی کو پسند کرتا ہوں اور مجھے میرے بڑوں نے یہی سکھایا ہے۔

یاد رہے کہ پچھلے سال بلوچستان کے دو ہندو لڑکوں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر باخوشی اسلام قبول کیا تھا اور اس سے قبل ،ایک ہندو پنڈت نے بھی دین اسلام کی خوصیات کی بدولت اسے پسند کیا تھا۔

Story Courtesy: BBC URDU


Like it? Share with your friends!

0

What's Your Reaction?

hate hate
0
hate
confused confused
0
confused
fail fail
0
fail
fun fun
0
fun
geeky geeky
0
geeky
love love
1
love
lol lol
0
lol
omg omg
0
omg
win win
0
win

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Choose A Format
Personality quiz
Series of questions that intends to reveal something about the personality
Trivia quiz
Series of questions with right and wrong answers that intends to check knowledge
Poll
Voting to make decisions or determine opinions
Story
Formatted Text with Embeds and Visuals
List
The Classic Internet Listicles
Countdown
The Classic Internet Countdowns
Open List
Submit your own item and vote up for the best submission
Ranked List
Upvote or downvote to decide the best list item
Meme
Upload your own images to make custom memes
Video
Youtube, Vimeo or Vine Embeds
Audio
Soundcloud or Mixcloud Embeds
Image
Photo or GIF
Gif
GIF format