میں پوری رات سو نہیں سکا۔ موت کے منہ سے واپسی یاد کرتے ہوئے مزید خوف کا شکار ہو جاتا ہوں، بٹگرام چیئر لفٹ میں پھنسا طالبعلم


0

گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے شہر بٹگرام میں پاشتو کے مقام پر چیئرلفٹ میں پھنسے 8 افراد کو نکالنے کیلئے کئی گھنٹے سے جاری ریسکیو آپریشن مکمل کرلیا گیا اور تمام افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا۔

Battagram Incident

قوم کی دعائیں، پاک فوج ،ریسکیو ٹیموں اور مقامی افراد کی محنت رنگ لے آئی،13 گھنٹے تک 600 فٹ کی بلندی پر چیئر لفٹ میں پھنسے 7 طالبعلوں سمیت 8 افراد کو ریسکیو کرلیا گیا۔

نویں جماعت کے طالبعلم کا بیان

Battagram Incident

“میں پوری رات سو نہیں سکا۔ مجھے سانس کی تکلیف بھی شروع ہو گئی ہے۔ آکسیجن لے رہا ہوں۔ موت کے منہ سے واپس آنے کے منظر کو یاد کرتے ہوئے مزید خوف کا شکار ہو جاتا ہوں۔”

Image Source: VoA

یہ کہنا ہے کہ نویں جماعت کے طالب علم اسامہ کا جو ان آٹھ افراد میں شامل تھے جو خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام میں لگ بھگ پندرہ گھنٹے تک ایک دیسی ساختہ کیبل کار میں پھنسے رہےتھے۔

اسامہ کے مطابق کیبل کار کا کرایہ ایک طرف سے فی کس بیس روپےہے جب کہ اسکول کے بچوں کے لئے دس روپے ہے۔

اسامہ کے بقول وہ صبح چھ بجے گھر سے اسکول کے لئے نکلتے ہیں اور ایک گھنٹےکا دشوار گزار سفر طے کرکے کیبل کار تک پہنچتے  ہیں۔کیبل کار انہیں پہاڑ کے دوسری طرف پہنچاتی ہے۔جہاں ان کا اسکول ہے۔

اسامہ کے چچا امان اللہ نے بتایا کہ اسامہ خوف کا شکار ہوگیا تھا اور کیبل کار سےدیگر بچوں کے رونے کی آوازیں سنائی دیے رہی تھی۔ اور شام چھ بجے کے بعد بچوں کے حوصلے پست ہونا شروع ہوگئے تھے

چیئر لفٹ کا مالک گرفتار

پولیس نے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے آلائی میں حادثے کا شکار ہونے والی چیئرلفٹ کے مالک اور لفٹ آپریٹر کو گرفتار کر لیا ہے۔

ان دونوں افراد کے خلاف پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے میں قیمتی جانوں سے کھیلنے، غفلت اور بےاحتیاطی کا مظاہرہ کرنے اور عوام کو ذہنی اذیت پہنچانے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

Battagram Incident
I mage Source:B.B.C Urdu

ایف آئی آر کے مطابق کیبل کار کے مالک کو پہلے بھی ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا کہ وہ اپنی لفٹ کی فٹنس سے متعلق رپورٹ تھانے میں جمع کروائیں تاہم نہ تو لفٹ لگانے کا اجازت نامہ اور نہ ہی فٹنس سرٹیفیکیٹ مہیا کیا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ پاشتو چیئر لفٹ کے مالک گل زرین کے پاس لفٹ چلانے کا سرکاری اجازت نامہ بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے لفٹ کو سیل کر دیا گیا ہے۔

پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق آج صبح اس کیبل کار نے حادثے کا شکار ہونے سے قبل دونوں گاؤں کے درمیان چار چکر لگائے تھے اور پانچویں مرتبہ بچوں کو لے جاتے ہوئے اس کی رسی ٹوٹ گئی۔

بٹگرام پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تمام پہلوؤں سے تفتیش جاری ہے اور تمام تر قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ملزمان کا چالان عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

صوبائی حکومت کا فیصلہ

خیبر پختونخوا  کی نگران حکومت نے بٹگرام چیئر لفٹ حادثے کے بعد تمام اضلاع کی انتظامیہ کو کمرشل اور رہائشی چیئر لفٹس کے معائنے کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر رپورٹ طلب کرلی ہے۔

نگران صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ  تمام کمرشل،ڈومیسٹک،تفریحی مقامات،  دریاوں اور ندی نالوں کے اوپر چلنے والی سفری چیئر لفٹس کی چیکنگ کی جائے۔

صوبائی حکومت کے مطابق تمام لفٹس کے ڈیزائن،گنجائش اور ان میں حفاظتی اقدامات کا معائنہ کیا جائے، اس کے علاوہ چیئر لفٹس چلانے کے لیے ضلعی انتظامیہ سے این او سی لینا لازمی ہوگا۔

نو سو فٹ کی بلندی پر پورا دن لٹکے رہنے والے افراد کو بچانے کے لیے ریسکیو آپریشن 12 گھنٹے تک جاری رہا تھا اور اس میں پاکستانی فوج اور ریسکیو 1122 کے اہلکاروں کے علاوہ مقامی آبادی نے بھی حصہ لیا تھا۔

کیبل کار کو جس مقام پر حادثہ پیش آیا وہ ضلع آلائی کا ایک دوردراز علاقہ ہے جہاں جانگری اور بٹنگی نامی دو پہاڑی دیہات کو ملانے کے لیے مقامی طور پر ایک چیئرلفٹ نصب کی گئی تھی۔

ڈولی میں پھنسے طلبا کا تعلق جانگری سے ہے اور وہ جا نگری سے بٹنگی تک پہنچنے کے لیے کم از کم دو گھنٹے کا پیدل سفر کرنا پڑتا ہے جبکہ اس کیبل کار کی مدد سے یہ فاصلہ چند منٹ میں طے ہو جاتا ہے۔

پاکستان کے دور دراز علاقوں بالخصوص خیبر پختونخوا اور شمالی علاقہ جات میں مقامی افراد آمد و رفت کے لیے کیبل کار کی طرز پر بنائی گئی دیسی ساختہ لفٹ استعمال کرتے ہیں جنھیں عمومی طور پر پیٹرول یا ڈیزل انجن کی مدد سے آپریٹ کیا جاتا ہے۔

اس دیسی ساختہ کیبل کار کو ’ڈولی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ پاکستان کے ایسے دشوار گزار علاقوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کے لیے استعمال ہوتی ہے جہاں مناسب ذرائع آمد و رفت جیسا کہ سٹرکیں یا پُل موجود نہیں ہوتے.

مسافت زیادہ نہ ہو تو عموماً ہاتھ کی مدد سے بھی ڈولی کو چلا لیا جاتا ہے، مگر زیادہ اونچائی اور زیادہ مسافت والی ڈولیاں پرانے انجن کی مدد سے چلائی جاتی ہیں۔۔۔


Like it? Share with your friends!

0
Annie Shirazi

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *