میری زندگی ایک جدوجہد ہے، پاکستان کی پہلی ٹیکسی ڈرائیور زاہدہ کاظمی


0

کہتے ہیں کہ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے، شوہر کے انتقال کے بعد اپنی زندگی کی گزر بسر اور بچوں کی اچھی پرورش کے لیے ٹیکسی چلانے پر مجبور ہونے والی پاکستانی کی پہلی پر عزم خاتون ٹیکسی ڈرائیور زاہدہ کاظمی، جو اپنی ہمت کے باعث پوری دنیا کی خواتین کے لئے ایک مثالی نمونہ ہیں۔

خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی 58 سالہ خاتون ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ شوہر کی وفات کے بعد بچوں کی پرورش کے لیے ٹیکسی چلانا شروع کی تو اس وقت ان کی عمر بمشکل 33 سال تھی۔ زاہدہ کاظمی کو ڈرئیوانگ ان کے مرحوم شوہر نے ہی انہیں سکھائی کیونکہ وہ خود بھی ٹیکسی ڈرائیور تھے۔

zahida kazmi
Image Source: Twitter

ان کی شادی 13 سال کی عمر میں ہوئی تھی اور 1972 میں ایبٹ آباد سے کراچی منتقل ہوگئیں۔ قسمت کی ستم ظریفی کہ جب وہ صرف 20 سال کی تھیں تو بیوہ ہوگئیں پھر شوہر کی وفات کے بعد انہوں نے 1992 میں اپنی مالی مشکلات کو دور کرنے کے لئے حکومت کی طرف سے 1987 میں شروع کی گئی روزگار اسکیم کے ذریعہ آسان اقساط پر یلو کیب خریدی ۔ اس وقت ملک میں ضیاء الحق کی حکومت تھی ۔ قدامت پسندی کے اس دور میں اپنے کنبے کو پالنے کے لئے روزی روٹی کمانے کے لئے انہیں خود کمر کسنا پڑی۔ وہ اپنی ٹیکسی پر روز صبح اسلام آباد ائیرپورٹ جاتیں اور مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچاتیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گھرانے کی معاشی تنگی دور کرنے کے لئے دوردراز قبائلی علاقوں میں بھی گاڑی چلاتی رہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ سوات، دیر اور چترال تک سواریاں لے جاتی رہی ہیں اور ایک دن میں پشاور کے چار چار چکر بھی لگاتی رہی ہیں۔

ٹیکسی ڈرائیور بننےکے بعد ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ شروعات کے دنوں میں وہ اپنی حفاظت کے لئے برقعہ پہنتی تھیں اور اپنے ہمراہ پستول بھی رکھتی تھیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ان کا خوف جاتا رہا۔ وہ کہتی ہیں کہ ڈرائیونگ کے پیشے سے منسلک ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر لوگوں نے ان کی بہت مدد کی اور مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا۔ آج بھی وہ راولپنڈی کی سڑکوں پر روزی کمانے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے الجزیرہ کو ایک انٹرویو میں زاہدہ کاظمی نے یہ انکشاف بھی کر چکی ہیں کہ اگر وہ صرف یہ سوچتی رہتیں کہ وہ ایک عورت ہیں تو گھر سے کبھی نہیں نکل پاتیں، اس دور میں مردوں سے مقابلہ کرنے کے لئے انہیں خود مرد بننا پڑا۔

Image Source: Twitter

پاکستانی معاشرے میں اپنے معاشی اور مالی حالات میں بہتری لانے کی کوششوں سے ٹیکسی ڈرائیور زاہدہ کاظمی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ زندگی میں چاہے صورت حال کتنی ہی خراب کیوں نا ہو اس سے قطع نظر اگر عورت کچھ کرنے کی ٹھان لے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے اور اپنی تقدیر کو بدل سکتی ہے۔ اس بارے میں زاہدہ کاظمی بتاتی ہیں کہ میری زندگی ایک جدوجہد ہے کیونکہ پاکستان میں ایک عورت ہونا کسی گناہ سے کم نہیں مردوں کے لئے پاکستان میں جینا آسان ہے۔ یہاں لوگوں کوکوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ایک عورت کتنی محنت کرتی ہیں، خواتین کے کام کو مردوں کے کام کی طرح قدر نہیں ملتی ہے۔

زند گی کے عملی میدان میں خواتین کی جدوجہد کی کہانی یہی ختم نہیں ہوتی، غزہ جیسے قدامت پسند شہر میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت ہے لیکن عملی طور پر صرف مرد ہی ٹیکسی چلانے کا کام کرتے ہیں اس معاشرے میں اپنے پانچ بچوں کی پرورش کرنےکے لئے خاتون 39 سالہ نائلہ ابو جبہ نے غزہ کی پہلی ٹیکسی ڈرائیور بن کر تاریخ رقم کر دی۔

Story Credits: Al Jazeera Witness


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *