توہینِ رسالت کی مرتکب خاتون کو سزائے موت سنا دی گئی


0

لاہور کی مقامی عدالت نے توہین رسالت کا جرم ثابت ہونے پر مقامی اسکول کی پرنسپل کو سزائے موت اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنادی۔ ایڈیشنل سیشن جج منصور احمد قریشی نے ملزمہ سلمٰی تنویر کے خلاف ٹرائل مکمل ہونے پر فیصلہ سنایا۔ استغاثہ نے مجرمہ کے خلاف کیس کو کامیابی سے ثابت کیا جبکہ مدعاعلیہ یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ ملزمہ نبوت کا دعویٰ کرتے وقت ذہنی طور پر نارمل نہیں تھیں۔

واضح رہے کہ سلمٰی تنویر نے 3 ستمبر 2013 کو لاہور میں اپنی رہائش گاہ کے قریب علاقے میں ایک پمفلٹ شائع اور تقسیم کیا تھا جس میں ختم نبوت کی تردید کی گئی تھی۔ اس پمفلٹ میں حضور نبی اکرم صلؔی اللہ علیہ وآلٖہ وسلؔم کی شان میں ہتک آمیز الفاظ بھی تھے اور خاتون نے نبوت کا دعویٰ کرتے ہوئے خود کو رحمت اللعالمین بھی کہا تھا۔

Image Source: File

اس واقعے پر مسجد انوار مدینہ کے امام قاری افتخار احمد نے خاتون کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی جس پر لاہور کے تھانہ نشتر کالونی میں مقدمہ درج کرکے خاتون کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ڈیڑھ سال کی مدت کے بعد ، دفاعی وکیل نے استدعا کی کہ اس کا موکل ذہنی طور پر ٹھیک نہیں ہے۔ طبی نتائج کے بعد ملزم کو ٹرائل کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔ مقدمہ اگلے دو سال تک معطل رہا یہاں تک کہ جیل حکام نے ملزم کے طبی معائنے کے بعد عدالت کو لکھا کہ ملزم مقدمے کا سامنا کرنے کے قابل ہے۔ جس کے بعد مقدمے کی سماعت ہوئی اور عدالت نے فیصلہ سنایا۔

عدالت نے بائیس صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا ہے کہ خاتون کا طبی معائنہ گرفتاری کے ایک سال بعد پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم سے کروایا گیا۔ میڈیکل بورڈ نے ان کے بارے میں لکھا کہ وہ ایک ذہنی بیماری شیزوفرینیا کی مریضہ ہیں اور اس حالت میں ان کا ٹرائل نہیں کیا جا سکتا۔ جس کے بعد سلمیٰ تنویر کا ٹرائل روک دیا گیا البتہ دو سال بعد 2019 میں اسی بورڈ کی سفارش پر ان کا ٹرائل دوبارہ شروع کیا گیا۔ جج منصور قریشی نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ یہ درست ہے کہ ملزمہ کی ذہنی حالت درست نہ ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ اور انہوں نے اسی بات کو ڈیفنس بھی لیا ہے تاہم ان کی بیماری کی نوعیت اتنی سنگین نہیں ہے۔ اور ہمارے قانون میں کم ذہنی بیماری میں سنگین جرم کرنے سے متعلق کوئی رعایت دستیاب نہیں ہے۔

Image Source: File

عدالتی فیصلے کے مطابق سلمیٰ تنویر نے کہیں بھی اپنے بیان میں یہ نہیں کہا کہ جو تحریر ان سے منسوب کی گئی ہے وہ انہوں نے لکھی ہی نہیں اور ان کےخلاف گیارہ گواہان نے یہی بتایا کہ یہ تحریر ان کی تھی۔ لہٰذا عدالت نے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 295 سی کے تحت توہین رسالت کے الزام میں سلمٰی تنویر کو سزائے موت اور 50،000 روپے جرمانہ کی سزا سنا دی۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خاتون سزا کے خلاف 7 دن میں ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرسکتی ہے۔

خیال رہے کہ تعزیرات پاکستان میں ایک آئینی شق 295 اور 298 کو قانون توہین رسالتؐ کہا جاتا ہے، جن میں سےایک شق 295 (سی) کے تحت سنگین گستاخی کی سزا موت مقرر کی گئی ہے، 295 اے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے کو جذباتی اذیت پہنچانے کی سزا کا تعین کرتا ہے جو دس سال تک ہوسکتی ہے۔ اسی طرح 295 بی قرآن کریم کی بے حرمتی اور 295 سی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلٖہ وسلم کی گستاخی کی سزا مقرر کرتی ہے، اس کے تحت پیغمبر اسلام کے خلاف تضحیک آمیز جملے استعمال کرنا، خواہ الفاظ میں، خواہ بول کر، خواہ تحریری، خواہ ظاہری شباہت/پیشکش،یا ان کے بارے میں غیر ایماندارنہ براہ راست یا بالواسطہ بیان دینا، جس سے ان کے بارے میں بُرا، خود غرض یا سخت تاثر پیدا ہو یا انکو نقصان دینے والا تاثر ہو یا ان کے مقدس نام کے بارے میں شکوک و شبہات و تضحیک پیدا کرنا، ان سب کی سزا عمر قید یا موت اور ساتھ میں جرمانہ بھی ہوگا۔

Story Courtesy: Express Tribune


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *