سعودی عرب میں شہریوں نے “ہالووین” منایا، تصاویر وائرل


0

اکتوبر کے اختتام پر ‘ہالووین‘ کے قریب آتے ہی مغرب کی دیکھا دیکھی مشرقی اور اسلامی ممالک میں بھی اس تہوار کو زور و شور سے منایا جانے لگا ہے۔ درحقیقت ہالووین تہوار کی جڑیں ہمیں یورپ میں نظر آتی ہیں، یہ تہوار قدیم مذہب سیلٹ کے ماننے والے صدیوں سے مناتے آۓ ہیں ۔اس مذہب کے ماننے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا میں انسانوں اور بری ارواح کے درمیان ایک پردہ موجود ہوتا ہے جو انسانوں کو ان بری ارواح سے محفوظ رکھتا ہے۔ مگر موسم گرما کے اختتام پر یہ پردہ بہت باریک ہوجاتا ہے اس پردے کے نازک ہونے کے سبب اس بات کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے کہ یہ بری ارواح انسان پر حملہ آور نہ ہوجائیں۔ان کے اس حملے سے بچنے کے لۓ اس مذہب کے پیروکار بھیس بدل کر ان بدروحوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تاکہ ان سے بچا جا سکے۔

انیسویں صدی کے نصف میں آئرش تارکین وطن ہالووین کو شمالی امریکہ لے کر آۓ تھے اور پھر اس میں جدت پیدا ہوتی گئیں۔اب اس دن لوگ اپنے گھروں کو نت نۓ اندازخوفناک انداز میں سجاتے ہیں، اس کے ساتھ کدو کو اندر سے خالی کر کے اس کی لالٹین بنا کر بھی گھروں کو سجایا جاتا ہے اور بچوں میں ٹافیاں اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔

Image Source: Screengrab

واضح رہے کہ خلیجی ممالک میں ‘ہالووین’ کو طویل عرصے سے روک دیا گیا تھا تاہم اس بار سعودی دارالحکومت ریاض میں ایک مخصوص مقام پر شہریوں نے ہالووین ویک اینڈ منایا ہے۔سعودی عرب میں ہونے والی اس تقریب کے شرکاء نے اس موقع کو بے ضرر تفریح کی ایک شکل قرار دیا۔سعودی تاریخ میں پہلی بار ہونے والی یہ تقریب آتش بازی، بہترین ساؤنڈ ایفیکٹس اور ڈراونے سجاوٹ کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اس ایونٹ کے دوران بلیوارڈ کے پنڈال کو ملبوسات پارٹی میں تبدیل کردیا گیا۔ایونٹ میں بھرپور شرکت کی حوصلہ افزائی کے لیے بھوتوں، چڑیلوں اور ڈراؤنے ملبوسات پہن کر آنے والے مہمانوں کو بلیوارڈ میں مفت داخلہ دیا گیا۔ تقریب کو خوفناک روپ میں ڈھالنے کے لیے سعودیوں اور رہائشیوں کے تخلیقی ڈیزائنوں کی نمائش کے لیے وقف کردیا گیا تھا۔منتظمین کا کہنا تھا کہ اس تقریب کا مقصد تفریح، سنسنی اور جوش سے بھرا ہوا ماحول بنانا تھا جس میں شرکاء نے مختلف کرداروں کے ملبوسات زیب تن کرکے ان کی کہانیاں بیان کیں۔ایونٹ میں شامل عبدالرحمان نامی نوجوان کا کہنا تھا کہ اس نے شمالی امریکا کی افسانوی مخلوق وینڈیگو کا لباس نمائش کے لیے رکھا جو لوک داستانوں کی انسانی گوشت کھانے والی بدکردار روح ہے۔ یہ کردار لالچ اور بھوک کا استعارہ ہے۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب میں غیر ملکی مردوخاتون کے ‘سامبا’ ڈانس کا معاملہ

اس موقع پر عبد الرحمان نے مزید کہا کہ یہ سچ میں ایک زبردست جشن ہے اور خوشی کا جذبہ ہے۔ اس کے حرام یا حلال ہونے کے حوالے سے میں زیادہ نہیں جانتا لیکن بس اسے تفریح کے لیے مناتے ہیں اور کچھ نہیں۔اسی طرح عبد العزیز بن خالد نے مغربی فلمیں اور زومبییز گور پر مشتمل بوسیدہ چرواہے کا لباس پہنا ہوا تھا جس پر لکھا تھا محتاط رہو یہ ایک زومبی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے میری پسندیدہ فلموں کے کردار کو اجاگر کیا ہے۔ایک اور شہری خالد الحاربی کا کہنا تھا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ میں یہاں صرف لطف اندوز ہونے اور تفریح کی غرض سے آیا ہوں، میرے اہل خانہ ساتھ ہیں جو خون آلود ڈاکٹر، نرس اور کنسلٹنٹ کے لباس میں ملبوس تھے۔

مزید پڑھیں: مدینہ میں بولڈ فوٹو شوٹ کی اجازت، امت مسلمہ میں غم و غصے کی لہر

زمانہ بدلنے کے ساتھ اب دنیا گلوبل ولیج کی حیثیت اختیار کرچکی ہے لہٰذا اب کوئی تہوار بھی کسی ایک قوم کی ملکیت نہیں رہا گزشتہ کچھ سالوں سے پاکستان میں بھی اس تہوار کو منایا جارہا ہے۔اس کی وجہ بظاہر اس تہوار کے اندر موجود آرٹ کا عنصر نظر آتی ہے۔جبکہ مذہبی رہنماؤں کا یہ ماننا ہے کہ اس قسم کے کسی تہوار کے کوئی شواہد قرآن و سنت میں موجود نہیں ہیں اور نہ ہی ایسی کوئی بات قرآن سے ثابت ہے کہ انسانوں اور بدروحوں کے درمیان ایسا کوئی پردہ موجود ہے جس سے بھیس بدل کر بچا جاسکتا ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *