پوائنٹ آف دین: نماز میں دل لگانا


0

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

یہ ایک عام مسئلہ ہے، عوام کا بھی اور خواص کا بھی۔ کسی کی توجہ نہیں لگ رہی تو کسی کا دل نہیں لگ رہا اور عبادت جیسے بوجھ بن کر رہ گئی ہے۔

عبادت میں توجہ اور رغبت پیدا کرنے کی کچھ کوشش کرنی چاہیے تاکہ نماز میں توجہ اور رغبت کے حوالے سے فائدہ ہو گا، ان شاء اللہ 

توجہ، ذہن کی یکسوئی کا نام ہے اور رغبت، دل کی یکسوئی کو کہتے ہیں۔ یعنی عبادت میں ذہن اور قلب دونوں متوجہ ہوں، یہ ہمارا مسئلہ ہے۔ یہ اس لیے عرض کر دیا کہ بہت سے لوگ خشوع وخضوع صرف ذہنی یکسوئی کو ہی سمجھتے ہیں کہ ذہن اللہ کی طرف متوجہ رہے، حالانکہ ذہنی یکسوئی کے ساتھ دل میں عبادت کا ذوق اور شوق بھی اصلاً مطلوب ومقصود ہے کہ دل عبادت کے دوران اللہ کی طرف لپکتا رہے۔ ذہنی یکسوئی، تصور اور خیال کی ہے جبکہ قلبی یکسوئی، خواہش اور طلب کی ہے۔

ایک صحیح روایت میں قرآن مجید اور وحی کی مثال بارش کے ساتھ دی گئی ہے کہ جو سخت اور نرم زمین پر اترتی ہے۔ اب نرم زمین اس کو جذب کر لیتی ہے تو غلہ اور اناج اگتا ہے، لہذا زمین کو بھی فائدہ ہو گیا اور دوسروں کو بھی۔ سخت زمین میں سے بعض پیالے کی طرح ہوتی ہیں کہ پانی کو خود تو جذب نہیں کرتی لیکن ذخیرہ کر لیتی ہے لہذا اس نے خود تو فائدہ نہ لیا لیکن دوسروں نے اس کے علم سے فائدہ حاصل کر لیا۔ اور بعض سخت زمین چٹان کی طرح ہوتی ہے کہ بارش کے پانی کو نہ تو جذب کرتی ہے اور نہ ہی دوسروں کے لیے روک لیتی ہے۔

عبادت میں توجہ اور دل لگنے کے لیے ضروری ہے کہ ذہن اور قلب کی زمین نہ صرف عبادت کے اثرات قبول کرنے کے لیے تیار ہوں بلکہ ان اثرات کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں تاکہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکیں۔ اب دل اور دماغ کو اس کے لیے تیار اور ہموار کیسے کیا جا سکتا ہے؟

سب سے اہم آزمائش ہے، ہم میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی آزمائش کا سامنا رہتا ہے، چھوٹی ہو یا بڑی، یہ آزمائش آپ کے دل ودماغ کو یکسو کر دیتی ہے اور نرم بھی، پس اس یکسوئی اور نرمی کو عبادت کے لیے استعمال کر لیں۔

ایک طریقہ صحبت کا ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھیں کہ جنہیں عبادت میں ذہنی اور قلبی یکسوئی حاصل ہو چکی ہو۔ کچھ عرصہ بیٹھنے سے ایسے احوال اور کیفیات حاصل ہوں گی کہ دل اور دماغ کی زمین عبادت کے اثرات قبول کرنے کے لیے تیار ہونا شروع ہو جائے گی۔

آفس کے کام اپنی جگہ لیکن جب وقتِ نماز ہوجاۓ تو آذان کے ساتھ ہی نماز کی تیاری کرنے اور وضو کے اَحکام (فرائض، سنن مستحبات) کی رعایت کریں، فرض نماز سے  پہلے دل ہی دل میں دعا و استغفار میں مشغول رہیں، اور اس پورے دورانیہ (اذان سے نماز تک) میں اس بات کا دھیان رکھیں کہ میں ایسے دربار میں حاضر ہورہی ہوں جو تمام بادشاہوں کے بادشاہ اور خالقِ کائنات کا دربار ہے، جیسے دنیا کے معمولی حکمران کے سامنے میں غائب دماغ اور پراگندہ فکر نہیں رہ سکتا، اسی طرح بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر اس دربار کے اَدب کے تقاضے ہیں، اور نماز میں اگر خیالات آئیں تو  ان پر دھیان دینے کے بجائے نماز کے افعال اور جو کچھ نماز میں پڑھیں اس کی طرف توجہ رکھنے کی کوشش کیا کریں، اس کے لیے نماز میں جو کچھ  تسبیحات، دعائیں اور التحیات وغیرہ پڑھی جاتی ہیں، ان کا اور آخری سورتوں کا ترجمہ یاد کرلیں، اور پڑھتے ہوئے معنی کی طرف توجہ رکھیں، ورنہ الفاظ کی طرف ہی دھیان کریں کہ میں کیا پڑھ رہی ہوں، اور بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر کسی طرح بھی توجہ مرکوز نہ ہو تو جس رکن کی ادائیگی میں مشغول ہو اس سے اگلے رکن کو ذہن میں رکھے کہ اب میں نے یہ عمل کرنا ہے، اس کے بعد یہ عمل کرنا ہے، اسی طرح پوری نماز میں دھیان نماز میں ہی رہے گا، یہاں تک کہ سلام پھیر دیں۔ روزانہ قرآنِ کریم کی تلاوت اور کچھ ذکر کیا کریں، اس سے بھی نماز میں دھیان لگے گا، نیز صلاۃ الحاجہ پڑھ کر اللہ تعالی سے  دل سے دعائیں بھی مانگتے رہیں، امید ہے ان تدبیروں سے دھیان لگنا شروع ہوجائے گا۔ اور جو اس کے بعد بھی بے اختیار دھیان بٹ جائے تو اس پر مؤاخذہ نہیں ہے، اور نماز میں لذت مطلوب نہیں ہے، اصل بات اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت ہے، خواہ اس میں لذت آئے یا نہیں، شرائط، فرائض اور سنن و مستحبات کے اہتمام کے ساتھ  عبادت انجام دینے کے ہم مکلف ہیں۔  فقط واللہ اعلم

شکریہ

سید محمد راشد علی رضوی

سید محمد راشد علی رضوی ایک اسلامک اسکالر ہیں۔ آپ تقریبا ۳۱ سال سے مختلف اداروں میں تدریس سے وابستہ رہے ہیں۔

پر بھیجیں ۔ ask@parhlo.comاپنے مسئلے کو تفصیل سے بیان کریں اور اپنے سوالات اس ہفتہ وار

سبجیکٹ لا ئن میں لکھیں۔ point of deen

نوٹ: اس کالم میں دی گئی رائے یا مشورہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ادارہ ” پڑھ لوڈاٹ کام ” ان خیالات کی عکاسی کریں


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *