آپ میرا رشتہ لیکر آئے ہیں،” شہباز گل کو کہنا مہنگا پڑگیا


1

اسپیشل اسٹنٹ وزیراعظم عمران خان ڈاکٹر شہباز گل جو میڈیا میں عموماً اپنی چرب زبانی اور حاضر جوابات کو لیکر یوں تو کافی مشہور ہیں۔ حکومت کے بیانیے کو اگر دفاع کرنے کی بات ہو تو کہا جاتا ہے شہباز گل سے بہتر یہ کام کوئی نہیں کرسکتا۔ لیکن حال میں ایسا ایک واقعہ پیش آیا جس نے سب کو حیران کردیا۔ معمول کے مطابق ایک پریس کانفرنس میں میڈیا نمائندوں نے شہباز گل سے چند سخت یا ضروری سوالات کئے جس کے کچھ کارآمد جواب دینے کے بجائے شہباز گل نے صحافیوں سے انتہائی توہین آمیز لفظوں کا سہارا لیکر بات کو گھوما دیا۔ آخر سوال ایسا تھا کیا؟

صحافی نے دوران پریس کانفرنس شہباز گل سے پوچھا کہ آپ کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک باقاعدہ منظم مہم جاری ہے جس میں یہ بیانیہ ہے کہ آپ کسی اور ملک کے رہائشی ہیں؟ ساتھ ہی آپ پر کسی کو ہراساں کرنے کے بھی الزامات لگائے جارہے ہیں۔ آپ کا اس پورے معاملے پر کیا کہنا ہے؟ جس کا گویا آسان سے الفاظ میں اچھا جواب دیا جاسکتا تھا البتہ شہباز گل نے اس سوال پر انتہائی بدتمیزی کا سہارا لیتے ہوئے جواب دیا کہ کیا آپ نے میرے لئے رشتہ بھجوانا ہے۔

کسی بھی صحافی کے لئے اس طرز کا جواب ناقابلِ قبول سمجھا جاتا ہے۔ لہذا صحافی نے پریس کانفرنس ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر شہباز گل کی گاڑی کو روک لیا اور ان سے اس جواب کی وضاحت طلب کرلی کہ انہوں ایسا کیوں کہا۔ البتہ ڈاکٹر شہباز گل نے اس موقع پر صحافی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔

اس برے روئیے پر صحافی نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا مطالبہ کیا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے اسپیشل اسٹنٹ ڈاکٹر شہباز گل کو اپنے اس جملے اور روئے کی معافی مانگنی ہوگی۔ صحافی کا مزید کہنا تھا کہ صحافی سوال کرتا پوچھتے ہیں اور سوال پوچھنا صحافیوں کا حق ہے۔ اس تمام صورتحال کے بعد ڈاکٹر شہباز گل وہاں سے فوراً اپنی گاڑی میں سوار ہوکر چلے گئے۔ جس پر وہاں موجود تمام صحافیوں نے “شیم شیم” کے نعرے بلند کئے۔

یاد رہے ڈاکٹر شہباز گل کو وزیراعظم عمران خان نے رواں سال ہی اسپیشل اسسٹنٹ آن پولیٹیکل کمیونیکیشن کے منصب پر تعنیات کیا ہے البتہ اس سے قبل وہ ترجمان پنجاب حکومت کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ اگرچہ قابلیت کے اعتبار سے ڈاکٹر شہباز گل لیڈر و مینجمنٹ میں پی ایچ ڈی ہیں اور وہ ملک بھر میں کافی یونیورسٹیز میں لیکچرر بھی دیتے ہیں ساتھ ہی وہ کئی پبلیکنز کے بھی مصنف ہیں۔ البتہ ان کو آج بھی یہ سکھنے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی بات کا جواب کیسے دینا ہے۔


Like it? Share with your friends!

1

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *