ماہِ شوال کے چھ روزوں کی فضیلت


0

رمضان المبارک کے روزوں اور عید الفطر کے بعد شوال المکرم کے چھ روزے رکھنے کی احادیث میں بہت فضیلت بیان کی گئی ہے، حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلؔی اللہ علیہ وآلٖہ وسلؔم نے فرمایا؛
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهٗ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ (مسلم : 2815)

Image Source: File

ترجمہ : جس نے رمضان کے روزے رکھے ، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ساری زندگی کے روزے رکھنے کی طرح ہے۔اس احادیث کے مطابق ہر نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا ملتا ہے، گویا رمضان المبارک کے ایک ماہ کے روزے دس ماہ کے روزوں کے برابر ہوئے، اور شوال کےچھ روزے ساٹھ روزوں کے برابر ہوئے، جو دو ماہ کے مساوی ہیں، اس طرح رمضان کے ساتھ شوال کے روزے رکھنے والا گویا پورے سال روزہ رکھنے والا ہوجاتا ہے۔تاہم قرآن وسنت کی روشنی میں ماہ شوّال کے چھ روزوں کے واجب ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے اس لیے اُمت مسلؔمہ کا اتفاق ہے کہ شوال المکرم کے چھ روزے فرض یا واجب نہیں ہیں بلکہ سنّت ہیں اور شوال  کے ان چھ روزوں کے سنّت ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔

Image Source: File

شوال کے یہ چھ روزے عید الفطر کے فوراً بعد رکھنا ضروری نہیں بلکہ عید کے دن کے بعد جب بھی چاہیں رکھ سکتے ہیں۔ یہ چھ روزے مسلسل رکھنا بھی ضروری نہیں ، درمیان میں وقفہ بھی کرسکتے ہیں بس اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان چھ روزوں کی تعداد شوال میں مکمل ہوجانی چاہیے۔ دراصل شوال کے ان چھ روزوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ رمضان المبارک کے روزوں میں ہم سے سرزد ہونیوالی کوتاہیاں اور کمی کو درگزر فرما دیتا ہے، ان چھ روزوں کی رمضان المبارک کے روزوں سے وہی نسبت ہے، جو فرض نمازوں کے بعد سنتوں کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سنتوں کے سبب ہماری فرض نماز کی کوتاہیوں کو معاف فرما دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: چند اچھی بنائی گئیں عادات جو رمضان المبارک کے بعد بھی ضروری ہیں

بطور مسلمان ہم سب کا یہ ماننا ہے کہ ہمارا رب اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے اور اس کی رحمت بندوں کو بخشنے کا بہانہ ڈھونڈتی ہے۔۔ بظاہر چھوٹی چھوٹی نیکیاں اللہ کی پسند آتی ہیں اور وہ اپنے بندے کی مغفرت فرمادیتاہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نیکیاں کرتے رہیں اور شوال کے ان چھ روزے رکھنے کا اہتمام کریں کیونکہ اس کا اجر وثواب بہت زیادہ ہے۔ البتہ اگر ہم سے کوئی یہ روزے نہ رکھے تو اسے طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنائیں کیوں کہ یہ مستحب روزے ہیں، جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *