پوائنٹ آف دین: حقوق العباد کس طرح ادا کئے جاسکتے ہیں


0

سوال: حق العباد کس کس شکل میں ادا کئے جا سکتے ہیں؟

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ

حقوق سے مراد:
حقوق جمع ہے حق کی جس کا مطلب ہے لازمی اور ضروری۔ حقوق دو قسموں کے ہوتے ہیں:

(۱) حقوق اللہ (۲) حقوق العباد

حقوق اللہ
اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے ذریعے اپنے سارے حقوق بندوں کو بتادیئے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور تمام وہ کام کرو جس کا اللہ اور رسول نے حکم دیا۔

حقوق العباد
عباد جمع ہے عبد کی جس سے مراد ہے انسان یا بندہ۔ اس طرح حقوق العباد کا مطلب ہے بندوں کے لئے ضروری یعنی حقوق۔ حقوق العباد میں دنیا کے ہر مذہب، ہر ذات و نسل، ہر درجے اور ہر حیثیت کے انسانوں کے حقوق آجاتے ہیں۔ اگر ہم عزیزوں کے حقوق ادا کریں تو اس کے ساتھ غیررشتہ داروں کے حقوق بھی ادا کریں۔والدین اگر اولاد حقوق کی ادائیگی کے لئے اپنی زندگی کی آسائش ترک کردیں تو اولاد بھی ان کی خدمت اور عزت میں کمی نہ کرے یہی اسلام کی تعلیم ہے پوری انسانیت کے لئے ۔ حقوق العباد میں مختلف حیثیت اور درجات کے لوگوں کے حقوق آجاتے ہیں۔
تمام انسانوں کے لئے حقوق
جب ہم انسانی حقوق کا ذکر کرتے ہےں تو اس میں مخصوص قسم کے لوگوں کے حقوق نہیں آتے بلکہ پوری انسانیت ہماری نظر کرم اور توجہ کی منتظر ہوتی ہے۔ اسلام نے پوری انسانیت کے حقوق ادا کرنے پر کسی بھی دوسرے مذھب سے کہیں زیادہ زور دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان قوم کو بہترین امت کہا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنے حقوق کو معاف فرما دے لیکن اس نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ بندوں کے حقوق جب تک کہ متعلقہ شخص معاف ناکردے اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں فرمائے گا۔
والدین کے حقوق
قرآن پاک نے والدین کے حقوق پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے کہ:
ماں باپ کی خدمت گزاری اچھی طرح کرو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ جوکچھ اپنے مال سے خرچ کروگے اس میں والدین کا بھی حق ہے۔
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
ماں باپ کا نافرمان جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی والدین نے ساتھ عزت و احترام محبت اور خدمت کی سخت تاکید کی تھی۔ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: تمہاری جنت تمہارے والدین ہیں اگر وہ خوش ہیں تو تم جنت میں جاو گے۔
اولاد کے حقوق
ماں باپ جس طرح اولاد کی پرورش، خدمت اور تعلیم و تربیت کرتے ہیں وہ اولاد کا حق ہے۔ اولاد کی بہترین پرورش اور تعلیم و تربیت ماں باپ کا فرض بن جاتا ہے۔ ایک حدیث اس بات کو اس طرح ثابت کرتی ہے۔
باپ جو کچھ اپنی اولاد کو دیتا ہے ان میں سب سے بہتر عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔

عزیزوں اور قرابت داروں کے حقوق
ہر انسان کے عزیز و اقارب ضرور ہوتے ہیں اور زندگی بھر ان سے تعلق قائم رہتا ہے۔ اللہ نے ان کے بہت سے حقوق مقرر فرمادئیے ہیں:
جوکچھ اپنے مال میں سے خرچ کروگے اس میں والدین کا بھی حق ہے اور قرابت داروں کا بھی۔
حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عزیزوں اور رشتہ دارون کے حقوق مقرر کردئیے اور فرمایا:
رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔
اس طرح یہ بات ظاہر ہوگئی کہ قرآن مجید اور احادیث نے عزیزوں اور رشتہ داروں کے بہت سے حقوق مقرر فرمادئیے ہیں۔ یعنی ان کی خوشی اور غم میں شریک ہونا، غریب رشتہ داروں کی مدد کرنا اور اسی طرح کے بہت سے ایسے کام کرنا جن سے رشتہ داروں سے تعلقات خوشگوار قائم رہیں ہمارے فرائض میں شامل ہیں۔
ہمسایوں کے حقوق
ہمسائے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ہمارے گھر کے بالکل نزدیک ہوتے ہیں اور عزیز نہیں ہیں۔ دوسرے وہ جو عزیز بھی ہوں اور تیسرے وہ جو ہمارے گھر سے ذرا دور رہتے ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ زور ان ہمسایوں پر دیا ہے جو گھر سے بالکل نزدیک رہتے ہےں۔ ان کا ہم پر حق سب سے زیادہ ہے اور وہ ہماری توجہ کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جو ہمارے ہمسایوں کو تکلیف پہنچائے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم ہمسایوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے کہ:
اپنے گھر کی دیواریں اتنی اونچی نہ کرو کہ ہمسایوں کی دھوپ اور روشنی رک جائے۔
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بار بار ہمسایوں کے حقوق اس انداز میں مقرر فرمائے کہ یہ ڈر ہوا کہ کہیں وراثت میں ان کا حق نہ مل جائے۔ لہذا ہمیں ہمسایوں سے حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جس سے ہمسایوں کے حقوق کی مکمل وضاحت ہوجاتی ہے:
کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ خود پیٹ بھر کے کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔

استادوں کے حقوق
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔
اسلام نے تعلیم حاصل کرنے پر بہت زور دیا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو پہلا پیغام ملاتھا وہ لفظ پڑھو سے ملا تھا۔ علم انسان کے لئے اس قدر اہم چیز ہے کہ ماں کی گود سے لے کر قبر تک جاری رہتا ہے اور ہرشخص یعنی مردوعورت، جوان و بوڑھے پر ایک فرض کی طرح عائد کیا گیا ہے۔
جب علم کی اس قدر اہمیت ہے تو استاد کی اہمیت بھی کچھ کم نہیں ہوسکتی۔ مختصراً یہ کہ والدین جو ہماری پیدائش اور تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اور معلم جو ہماری نشونما کے ذمہ دار ہوتے ہیں تو والدین کی طرح سے ہی معلم بھی عزت و احترام کے مستحق ہیں۔
استاد شاگردوں کو آگے جاتا ہوا دیکھ کر حسد نہیں کرتا بلکہ خوش ہوتا ہے۔
ناداروں، مسکینوں اور مفلسوں کے حقوق
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مظلوم طبقے کے حقوق اچھی طرح سمجھائے، مقرر کیے اور ادا کئے۔ یہ طبقہ اسلام سے قبل بڑی ذلت آمیز زندگی گزارتا تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں ان سے کے حقوق مقرر کئے:
بیماروں کی عبادت کرنا ان کا حق ہے، یتیموں کی کفالت کرنا ان کا حق ہے۔
حق صرف پیسے سے ہی نہیں بلکہ دیگر اور طریقوں مثلآ اچھا مشورہ وغیرہ سے بھی ادا ہوسکتا ہے۔


سید محمد راشد علی رضوی

سید محمد راشد علی رضوی ایک اسلامک اسکالر ہیں۔ آپ تقریبا ۳۱ سال سے مختلف اداروں میں تدریس وابستہ رہے ہیں۔

پر بھیجیں ۔ ask@parhlo.comاپنے مسئلے کو تفصیل سے بیان کریں اور اپنے سوالات اس ہفتہ وار

سبجیکٹ لا ئن میں لکھیں۔ point of deen

نوٹ: اس کالم میں دی گئی رائے یا مشورہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ادارہ ” پڑھ لوڈاٹ کام ” ان خیالات کی عکاسی کریں


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *