باہمت گولڈ میڈلیسٹ ویٹ لفٹر رمیشہ عادل خان کی کہانی


0

ہمارے معاشرے میں خواتین کی شادی میں ناکامی کو زندگی کا اختتام سمجھا جاتا ہے، اور عام خواتین کی نسبت طلاق یافتہ خواتین کو معاشرے میں اپنا مقام بنانے کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔رمیشہ عادل خان کا شمار بھی ایسی ہی خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی ہمت سے ثابت کیا کہ شادی میں ناکامی یا بچے نہ ہونے سے عورت کی زندگی ختم نہیں ہوتی۔

گیارہ سالہ کی ازدواجی رفاقت ختم ہونے اور ماں نہ بننے والی رمیشہ عادل خان نے اپنی ذاتی ذندگی کی ناکامیوں کو زندگی بھر کا روگ نہ بنایا بلکہ انہیں پس پشت ڈال کر حالات کا مقابلہ کیا اوروہ پاور ویٹ لفٹنگ کے مشکل مقابلے میں گولڈ میڈلیسٹ بن گئیں۔ پاور لفٹنگ کا یہ مقابلہ حال ہی میں لاہور ڈویژن میں منعقدہ پاور لفٹنگ ہوا۔

Image Source: Instagram

عام پاکستانی گھرانوں کی طرح رمیشہ عادل خان کی شادی بھی کم عمری میں ہوگئی۔ ان یہ شادی 11 سال تک رہی۔ بدقسمتی سے ان کی کوئی اولاد نہیں ہوسکی اور طویل رفاقت کے بعد یہ شادی ختم ہوگئی۔

شادی شدہ زندگی ختم ہونے کے بعد رمیشہ عادل خان کو جلد ہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ ان کی زندگی شادی، باورچی خانے اور بچوں تک محدود نہیں لہٰذا انہوں نے اپنے حالات سے مقابلہ کرنے کے لئے خود میں حوصلہ پیدا کیا اور یوں وہ اپنی زندگی میں آنے والی ہر مشکل کا مقابلہ کرتی چلی گئیں۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک جم میں فٹنس ٹرینر کی جاب جوائن کی۔اس کے بعد انہوں نے طلاق دائر کی اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات دیئے۔ عام لڑکیوں کے برعکس ، رمیشہ عادل خان کو بچپن سے ہی وزن اٹھانے کا جنون تھا۔ محض فٹنس کے لئے جم شروع کرنے والی رمیشہ کا شوق دیکھ کر ان کی لیڈی کوچ نے انہیں فٹنس ٹرینر بننے کا مشورہ دیا۔

Image Source: Instagram

فٹنس ٹرینر بننے کا سفر ان کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوا، اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہوں نے فٹنس ٹرینر کے لئے باقاعدہ ٹیسٹ دیا اور سرٹیفکیٹ ملنے کے بعد جم میں فٹنس ٹرینر بن گئیں۔ اس فیلڈ میں اب انہیں 10 سال ہوچکے ہیں۔

فٹنس ٹرینر بننے کے اہم فیصلے نے رمیشہ عادل خان کی زندگی کو نیا رُخ دیا اور وہ ویٹ لفٹنگ کی طرف آگئیں یوں ان کی زندگی کا مقصد بدل گیا اور آج وہ گولڈ میڈلسٹ ہیں اور انہوں نے پاور ویٹ لفٹنگ کے مشکل مقابلے میں ضلعی سطح پر 100 کلوگرام اسکواٹس اور 115 کلوگرام ڈیڈ لفٹیں کیں اور سونے کا تمغہ جیتا۔بان کا اگلا ہدف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنا ہے۔ اپنی اس نمایاں کامیابی پر انہوں نے انسٹاگرام پر پوسٹ کی جس میں رمیشہ نے لکھا کہ انہوں نے لاہور کی نمائندگی کرنے والی انٹر ڈویژن پاور لفٹنگ چیمپئن شپ جیت لی اور اس ٹائٹل کو حاصل کرنے کے لئے بہت محنت کی ۔اس پوسٹ میں انہوں نے اپنی کوچ کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے رمیشہ کو اس فیلڈ سے متعارف کروایا اور پھر اس مقصد کو پانے میں ان کی بھرپور رہنمائی بھی کی۔ آخر میں انہوں نے اپنی کامیابی پر خدا کا شکر ادا کیا۔

ہمارے معاشرے کی ایک عام طلاق یافتہ عورت کی طرح رمیشہ نے بھی معاشرتی رویوں کا سامنا کیا ہوگا اور اپنی بےاولادی پر بھی کئی باتیں سنی ہوں گی۔ لیکن اس سفر میں انہوں نے اپنے حوصلوں کو کم نہیں ہونے دیا بلکہ چہرے پر مسکراہٹ سجاکر ہر مشکل ہر رکاوٹ کو عبور کرتی چلی گئیں اور بلآخر اپنے ٹیلنٹ کی بنیاد پر معاشرہ میں اپنا منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔


Like it? Share with your friends!

0

0 Comments

Your email address will not be published. Required fields are marked *